Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

القادر ٹرسٹ کرپشن کیس: عمران خان آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

عمران خان کی نمائندگی خواجہ حارث، بیرسٹر علی گوہر اور ایڈووکیٹ علی بخاری نے کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو آٹھ روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا۔
دوسری جانب توشہ خانہ کیس میں عمران خان پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ’خدشہ ہے کہ میرے ساتھ مقصود چپڑاسی والا کام نہ ہو
بدھ کو نیب راولپنڈی نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو پولیس لائنز ہیڈکوارٹر کے گیسٹ ہاؤس میں ایک روز کے لیے قائم کی گئی عدالت میں جج محمد بشیر کے روبرو پیش کیا۔
عمران خان حسب معمول گرے شلوار قمیض اور واسکٹ پہنے ہوئے تھے تاہم وہ پہلے کی طرح ہشاش بشاش نظر آنے کے بجائے زیادہ تر وقت اپنے چہرے پر سنجیدگی سجائے کمرہ عدالت میں ایک کرسی پر براجمان رہے۔
القادر ٹرسٹ کیس میں ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی، سپیشل پراسکیوٹر رافع مقصود اور نیب کے پراسکیوٹر سردار ذوالقرنین اور انوسٹیگیشن آفیسر میاں عمر ندیم بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
جبکہ عمران خان کی نمائندگی خواجہ حارث، بیرسٹر علی گوہر اور ایڈووکیٹ علی بخاری کر رہے تھے۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو نیب کی جانب سے عمران خان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔ عمران خان کے وکلا نے اپنے موکل سے مشاورت کے لیے وقت مانگا تو عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔ وقفے کے دوران عمران خان نے کیس پر اپنے وکلاء سے مشاورت کی۔

توشہ خانہ کیس کی سماعت بھی پولیس لائن ہیڈکوارٹر ایچ الیون کے گیسٹ ہاؤس میں ہوئی جہاں عمران خان کو پیش کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تقریباً 40 منٹ کے وقف کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ خواجہ حارث نے نیب کی جانب ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کی گرفتاری غیر قانونی طور پر کی گئی۔
عمران خان کی گرفتاری کے لیے مناسب طریقہ نہیں اپنایا گیا۔ نیب نے نوٹس تو بھیجا لیکن شکایت کو کب ریفرنس میں تبدیل کیا؟ عمران خان کو کئی دیگر کیسز میں گھسیٹا جارہا ہے۔ میرا موکل شامل تفتیش ہوکر تحقیات میں تعاون کرے گا۔ جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے۔
دوران سماعت عمران خان نے احتساب عدالت میں بیان دیا کہ مجھے نیب دفتر پہنچا کر وارنٹ گرفتاری دکھائے گئے۔ جس پر ڈپٹی پراسکیوٹر نیب نے کہا کہ عمران خان کو گرفتاری کے وقت ہی وارنٹ دکھا دیے تھے۔
پراسیکیوٹر نیب نے عمران خان کے وکلا کو دستاویزات فراہمی کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ یہ کرپشن کا کیس ہے جس کی تحقیقات برطانیہ کی این اے سی نے کی۔ اس کیس کی رقم حکومت پاکستان کو منتقل ہونا تھی۔ واپس آنے والی رقم حکومت کے بجائے بحریہ ٹاؤن کو دے دی گئی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کی زمین پر عمارت بنی ہوئی ہے۔ ٹرسٹ میں لوگ مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ٹرسٹ  کا ایک ایک لیگل پرسن ہوتا ہے جوپبلک افس ہولڈرنہیں ہوتا۔ عمران خان اس وقت پبلک افس ہولڈر نہیں ہیں۔
اس دوران عمران خان نے بات کرنے کی اجازت چاہی تو جج محمد بشیر نے انھیں اجازت دے دی۔ عمران خان نے احتساب عدالت کے سامنے یبان میں کہا کہ ’میں 24 گھنٹے میں واش روم نہیں گیا۔ ،میرے معالج ڈاکٹر فیصل کو بلایا جائے۔ چاہتا ہوں میرے ساتھ مقصود چپڑاسی والا کام نہ ہو۔ یہ انجکشن لگاتے ہیں، بندہ آہستہ آہستہ مر جاتا ہے۔

عدالت نے توشہ خانہ کیس کے قابل سماعت اور دائرہ اختیار سے متعلق درخواستیں مسترد کردی تھیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عمران خان نے کہا کہ ’میری گرفتاری سیاسی انتقام ہے۔ میرے وارنٹ گرفتاری کسی اور ادارے سے آئے ہیں۔ ایسا کون سا ریکارڈ ہے جو میں ان کو فراہم نہیں کر رہا۔

توشہ خانہ کیس

توشہ خانہ کیس کی سماعت بھی پولیس لائن ہیڈکوارٹر ایچ الیون کے گیسٹ ہاؤس میں ہوئی جہاں عمران خان کو پیش کیا گیا۔ کمشنر آفس نے حفاظتی وجوہات کے باعث پولیس لائنز کو عدالت کا درجہ دیا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے آج عمران خان کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔
عدالت نے عمران خان پر توشہ خانہ کیس میں فرد جرم عائد کردی تاہم عمران خان نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے دستاویزات پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔
عمران خان کے وکیل نے فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ موخر کرنے کی درخواست جسے عدالت کی جانب سے مسترد کر دیا گیا۔ جس کے بعد عمران خان کے وکلاء نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔
گزشتہ سماعت پر عدالت نے توشہ خانہ کیس کے قابل سماعت اور دائرہ اختیار سے متعلق درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

تحریک انصاف کی لیگل ٹیم کی بھاگ دوڑ

اگرچہ عوام کی نظریں پولیس لائنز میں لگی عدالت پر تھیں لیکن تحریک انصاف کی قانونی ٹیم اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی قانونی جنگ لڑنے میں مصروف رہی۔

پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تحریک انصاف کی لیگل ٹیم نے عمران خان کی گرفتاری، پولیس لائنز میں عدالت کی منتقلی سمیت دیگر مقدمات کے حوالے سے رات سے ہی تیاری شروع کر دی تھی۔ عمران خان کی عدالت میں پیش کے سلسلے میں بھی سب سے پہلے لیگل ٹیم کے ارکان ہی پولیس لائنز پہنچے تھے تاہم انھیں اندر جانے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا۔
ایڈووکیٹ فیصل چودھری نے اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے پولیس لائنز میں عدالت کے قیام کے لیے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی کہ اس نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ اس سے عمران خان کے شفاف ٹرائل کی توقع نہیں ہے۔
دوسری جانب بیرسٹر علی ظفر اور فواد چوہدری سپریم کورٹ پہنچے جہاں انھوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دینے کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے استدعا کی اس فیصلے اور گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔

احتجاج، جھڑپیں، مقدمات اور گرفتاریاں

منگل کے روز اگرچہ اسلام آباد میں دوپہر تک صورت حال معمول کے مطابق رہی اور پولیس کی جانب سے بند کیے گئے راستوں کے علاوہ ایک دو مقامات پر ہی معمولی احتجاج دیکھنے میں آیا۔ تحریک انصاف کی جانب سے کال دینے کے باوجود کارکنان عدالت کے باہر نہ پہنچے تاہم دوپہر کے بعد کارکنان سری نگر ہائی وے پر ٹولیوں کی شکل میں پہنچے اور پولیس اہلکاروں پر پتھراو شروع کر دیا۔ کارکنان نے اے سے پوٹھوہار کی گاڑی کے شیشے توڑ دیے۔
پولیس کی جانب سے الزام عاید کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی ورکرز کی جانب سے درختوں کو آگ لگائی جارہی ہے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ مظاہرین کی جانب سے پٹرول بم پھینکے جارہے ہیں اور پتھراؤ کیا جارہا ہے۔ مسافروں سے گذارش ہے کہ آمدورفت کےلیے محفوظ راستے کا انتخاب کریں۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔
دوسری جانب پولیس نے پیر کے روز ہونے والے احتجاج کرنے والے کارکنان کے خلاف مقدمات درج کرنے اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

 

پولیس حکام کے مطابق تھانہ کھنہ، لوہی بھیر، ترنول، آبپارہ اور دیگر تھانوں میں 10 سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان مقدمات میں تحریک انصاف کی مقامی قیادت جن میں علی نواز اعوان، عامر کیانی اور دیگر شامل ہیں کو نامزد کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پولیس نے اب تک 109 کارکنان کو گرفتار کیا ہے جبکہ مزید مقدمات اور گرفتاریوں کا بھی امکان ہے۔
پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر درج ایف آئی آر میں پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کر لیا۔ اس موقع پر پولیس نے تحریک انصاف سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو بھی گرفتار کرنے کی کوشش کی تاہم وکلاء اور کارکنان انھیں بھگا کر لے گئے۔ جہاں سے وہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کی گاڑی میں روانہ ہوگئے۔

شیئر: