Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کا ٹکسالی گیٹ جہاں سے نور جہاں کی لازوال شہرت کا آغاز ہوا

فلم انڈسٹری میں نور جہاں کے قدم صحیح معنوں میں اس وقت جمے جب انہوں نے 1938 میں لاہور کا رخ کیا۔ (سکرول)
کچھ عرصہ پہلے لاہور کے شیخو پوریاں بازار اندرون ٹکسالی سے گزرتے ہوئے ایک پرانے دھرانے مقفل دروازے کے اوپر نصب تختی پر نظر گئی، جس سے معلوم ہوا کہ نور جہاں نے عمرِ عزیز کے چار برس 1942-1938 یہاں گزارے تھے۔
کہنے کو یہ چار سال ہیں لیکن نور جہاں کو نور جہاں بنانے میں ان چار برسوں کو بڑا دخل ہے۔ برصغیر میں ان کی لازوال شہرت کی بنیاد انہی برسوں میں رکھی گئی۔ نور جہاں کی رہائش گاہ جوتوں کی دکانوں میں گھری ہے جس کے پاس ہی پاکستان ٹاکیز کی اجڑی پجڑی عمارت ہے جو تقسیم سے پہلے عزیز تھیٹر اور رائل ٹاکیز کے نام سے جانی جاتی رہی ہے۔
نور جہاں کی حیاتِ باکمال کے اس خاص عرصے سے جڑی چند کہانیاں برسوں سے ذہن میں تھیں جنھیں یہ پرانا مسکن دیکھ کر تازہ کرنے کا بہانہ ملا ہے۔
نور جہاں کا خاندان قصور سے لاہور منتقل ہوا تو یہ ان کے بچپن کا زمانہ تھا۔ اس وقت ان کی عمر پانچ چھ سال رہی ہو گی۔ یہ 1930 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے۔ لاہور میں ان کی آواز میں نعت ’ہنستے ہیں ستارے یا شاہِ مدینہ‘ کا بڑا شہرہ ہوا جو انہوں نے مہابیر تھیٹر میں پڑھی تھی۔ اس کی طرز جی اے چشتی نے بنائی تھی۔ اس کے بعد نور جہاں اپنی بڑی بہن عیدن اور کزن حیدر باندی کے ساتھ سٹیج پر پرفارم کر کے داد بٹورتی رہیں۔
سنہ 1933 میں ان کے خاندان نے لاہور سے کلکتہ کی راہ لی جہاں نور جہاں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ پنجابی فلم ’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘ سے انہیں شناخت ملی۔ اس میں ان کی آواز میں یہ گانا مشہور ہوا:’لنگھ آجا پتن چناں دا او یار، لنگھ آ جا۔‘ اس کے بعد نور جہاں نے اور بھی فلموں میں کام کیا لیکن فلم انڈسٹری میں ان کے قدم صحیح معنوں میں اس وقت جمے جب انہوں نے 1938 میں لاہور کا رخ کیا اور پنچولی آرٹ سٹوڈیو کی فلم ’گل بکاؤلی‘ میں جلوہ گر ہوئیں۔
فلم میں انہوں نے’ گل بکاؤلی‘ کی چھوٹی بہن کا کردار کیا۔ فلم کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر اور نغمہ نگار ولی صاحب تھے جن کے کام کو نور جہاں نے ان الفاظ میں سراہا: ’سب گانوں کے بول اور دھنیں بھی لاجواب تھیں۔‘

’لیل و نہار‘کا یکم نومبر 1959 کا پرچہ۔ (فوٹو: محمود الحسن)

دل سکھ پنچولی بھی نور جہاں کے کام سے بہت خوش ہوا۔ اس فلم کے گیت ’شالا جوانیاں مانیں، آکھا نہ موڑیں‘ نے نور جہاں کی شہرت کو پر لگا دیے۔
گزشتہ ماہ پرانی کتابوں کے بازار سے ماضی کے معروف جریدے ’لیل و نہار‘ کا یکم نومبر 1959 کا پرچہ دستیاب ہوا تو اس میں مذکورہ گیت کے بارے میں یہ حکایتِ دل پذیر پڑھنے کو ملی:
 ’شالا جوانیاں مانیں آکھا نہ موڑیں
پی لے۔۔۔
آج سے کوئی بائیس برس پہلے لاہور کے محلے پیر گیلانیاں میں میلے کے موقعے پر پیر بودیاں والے کی محفل میں ایک ننھی سی بچی نےایک جگ اپنے کندھے پر رکھ کر معصومانہ اداکاری کے ساتھ یہ گیت گایا تو پوری محفل جھوم اٹھی۔ بڑے فنکاروں نے یہ پیش گوئی کی کہ یہ آواز اپنی جادو بھری تاثیر کے باعث دنیا میں نور بھر دے گی۔ یہ ننھی بچی بے بی نور جہاں تھی اور اس نے فلم ’گل بکاؤلی‘ میں گایا ہوا یہ گیت پیر صاحب کے حضور گا کر بڑے فنکاروں سے داد اور پیر صاحب سے دلی دعائیں لی تھیں۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ ان محفلوں میں ہندوستان کے تمام بڑے بڑے کلاکار حاضر ہوتے تھے۔ بے بی نور جہاں کے گانے سے پہلے روشن آرا بیگم اور استاد بڑے غلام علی خاں کے علاوہ استاد عاشق علی خان مرحوم بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے تھے۔‘
یہ گانا جس زمانے میں ہٹ ہوا امرتا پریتم لاہور میں رہتی تھیں۔ انہوں نے لکھا کہ اس گانے نے دھوم مچا دی تھی اور نور جہاں کی سریلی اور رسیلی آواز نے سب کو حیران کر دیا تھا۔
امرتا پریتم نے گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا:
’میں نور جہاں کو تب سے جانتی ہوں جب وہ بے بی نور جہاں کہلاتی تھی۔ اس زمانے میں، میں ریڈیو سٹیشن لاہور پر گیت سنگیت کے روپ سروپ کے ساتھ ساتھ شاعری کی کتابوں کا تعارف اور تبصرہ پیش کیا کرتی تھی۔
ہمارا گھر گمٹی بازار میں تھا۔ ریڈیو جانے کے لیے ٹانگے پر سوار ہوتی یا ریڈیو کی گاڑی لینے کے لیے آ جاتی۔ ہمارے گھر سے بڑی سڑک تک جانے کے لیے ہیرا منڈی سے ہو کر جانا پڑتا تھا۔ یہ ہیرا منڈی کا وہ علاقہ تھا جہاں ریڈیو پر گانے بجانے والیاں آباد تھیں۔ ریڈیو کی گاڑی نے رستے میں دوسری فنکاروں کو بھی لینا ہوتا تھا۔ انہی دنوں میری جان پہچان نور جہاں، زینت بیگم، شمشاد بیگم، امراؤ ضیا بیگم، ملکہ پکھراج اور منور سلطانہ جیسی نامور گانے والیوں سے ہوئی۔‘ (ترجمہ:کنول مشتاق)

لاہور کے شیخو پوریاں بازار اندرون ٹکسالی کا وہ گھر جہاں نور جہاں نے چار برس گزارے۔ (فوٹو: محمود الحسن)

انٹرنیٹ پر آل انڈیا ریڈیو کے رسالے ’انڈین لسنر‘ کے بعض پرچے دیکھنے کا اتفاق ہوا تو اس میں لاہور ریڈیو سٹیشن کے پروگراموں میں نور جہاں کا نام بھی نظر آیا۔ اس رسالے کے ایک پرچے میں نور جہاں کی تصویر بھی شائع ہوئی تھی جس کی خبر ہمیں قرۃ العین حیدر کے ایک مضمون سے ملتی ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
’میرے اپنے بچپن کی ایک یاد یہ بھی ہے کہ انڈین لسنر کے ایک صفحے پر ’بے بی نور جہاں‘ ناک میں بڑی سی نتھ پہنے طنبورہ لیے بیٹھی ہیں۔ یہ ریڈیو سنگرز بھی اس زمانے کے لیے بڑی افسانوی ہستیاں تھیں۔ ‘
سنہ 1942 میں کرتار سنگھ دگل لاہور ریڈیو سٹیشن سے وابستہ ہوئے۔انہوں نے آپ بیتی’ کس پہ کھولوں گنٹھڑی‘ میں لکھا ہے کہ امتیاز علی تاج چاہتے تھے کہ نور جہاں کو ڈراموں کی ریہرسل میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے لیکن سٹیشن ڈائریکٹر رشید احمد نہیں مانے۔ ان کا خیال تھا ’ہمارے لڑکوں کو خراب کرے گی۔‘
پنجابی فلموں کے مصنف سکے دار نے خود نوشت ’ہوک‘ میں نور جہاں کے ہیرا منڈی میں قیام کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملکہ ترنم بن کر نور جہاں کے حصے میں جو شہرت آئی اسی طرح کی ناموری انہیں بے بی نور جہاں کے طور پر بھی حاصل تھی۔
اس مشہوری میں ایک اہم فیکٹر فلموں کے دوران زندہ ناچ گانا تھا جس کی وجہ سے فلاپ فلم دیکھنے کے لیے بھی ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے۔ یہ پروگرام جو پارٹیاں کرتی تھیں نور جہاں بھی ان میں سے ایک کا حصہ بن گئیں۔
سکے دار کے بقول ’ان دنوں فلموں کے اشتہار کچھ یوں ہوا کرتے تھے: ’فلم مدن منجری کے ساتھ طمنچہ جان کا زندہ ناچ و گانا۔‘ اشتہار پر بے بی نور جہاں کا زندہ ناچ و گانا لکھا گیا تو لوگ چوک ہیرا منڈی کے سینما پر ٹوٹ پڑے۔‘
سکے دار نے نور جہاں کے بھائی عنایت سے اپنی دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک مزے کا قصہ بیان کیا ہے۔ ٹکسالی میں مہر خدا بخش نان ٹکیاں بیچتا تھا۔ نور جہاں کا عاشقِ زار۔ سکے دار نے عنایت کا اس سے تعارف کروایا تو اس سے بڑی محبت سے پیش آیا۔ وہ دکان پر آتا تو اسے نان ٹکی کھلاتا۔ محبوب کی گلی کا تو کتا بھی پیارا ہوتا ہے اور یہ تو پھر بھائی تھا۔ سکے دار نے ایک دن اس سے پوچھا کہ عاشق تم نور جہاں کے ہو تو اس کے بھائی سے التفات کا کیا مطلب تو اس نے پنجابی میں جو کہا اسے یہاں لکھا نہیں جاسکتا اس کا پھیکا سیٹھا مفہوم یہ ہے کہ خون تو ایک ہی ہے۔ 

نور جہاں کو پنجابی فلم ’شیلا عرف پنڈ دی کڑی‘ سے شناخت ملی۔ (فوٹو: مندیپ سنگھ سدھو)

نور جہاں کی بہن عیدن کی شادی معروف نغمہ نگار تنویر نقوی سے ہوئی تھی۔ تقسیم کے بعد وہ کچھ عرصہ مزنگ میں رہنے کے بعد بازار حکیماں بھاٹی دروازے اٹھ آئے۔ ان کے ہاں سکے دار کی نور جہاں سے ملاقات ہو جاتی۔ ایک دن عنایت بھی ان کے ساتھ آیا تو سکےدار نے مہر خدا بخش کی عنایات کا قصہ بیان کر دیا جسے سن کر نور جہاں بڑی محظوظ ہوئیں اور ’ملکہ ترنم کا ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔‘
’گل بکاؤلی‘ سے نور جہاں کے لیے کامیابی کا در کھلا تو انہیں اور بھی فلموں میں اداکاری اور گلوکاری کے جوہر دکھانے کا موقع میسر آیا لیکن جس فلم سے ان کی مقبولیت کا گراف بہت اوپر گیا وہ پنچولی اسٹوڈیو کی فلم ’خاندان‘ تھی جس کے ہدایت کار شوکت حسین رضوی تھے۔ فلم کے ہیرو پران تھے جو تقسیم کے بعد انڈین فلموں کے مشہور ولن بنے۔ وہ اپنی پہلی فلم ’یملا جٹ‘ میں بھی نور جہاں کے ساتھ کام کر چکے تھے۔ ’خاندان‘ پہلی فلم تھی جس میں ’بے بی‘ کے سابقے سے نور جہاں کی جان چھوٹی۔
 12مارچ 1942 کو ریگل سینما لاہور میں ریلیز ہونے والی ’خاندان‘ کھڑکی توڑ ثابت ہوئی۔ فلم کی کہانی امتیازعلی تاج نے لکھی۔ گیت ڈی این مدھوک اور شوکت تھانوی کے قلم سے تھے۔ موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی۔ فلم کے گانے بہت مقبول ہوئے۔ فلم کے پوسٹر پر درج ہوتا ’نغموں کی رانی: نور جہاں۔‘
فلم میں ہیرو (پران) کی بے وفائی سے دلگیر ہیروئن (نورجہاں) کی پرُسوز آواز میں یہ گیت دل پر اثر کرتے ہیں :
تو کون سی بدلی میں میرے چاند ہے آ جا ، تارے ہیں مرے زخم جگر ان میں سما جا
میرے لیے جہان میں چین ہے نہ قرار ہے، دل میں ہیں بے قراریاں آنکھوں میں انتظار ہے
رضا علی عابدی نے ’نغمہ گر‘ میں لکھا ہے کہ نامور موسیقار آر سی بورال خاص طور سے یہ فلم دیکھنے لاہور آئے اور دنگ رہ گئے۔
’خاندان‘ کی کامیابی نور جہاں کے کیریئر کا اہم موڑ ثابت ہوئی ۔علی سفیان آفاقی کے بقول ’نور جہاں کا معصوم چہرہ، پُرکشش جسم اور سب سے بڑھ کر جان فزا آواز نے سارے ہندوستان کو مسحور کر لیا۔‘
سعادت حسن منٹو نے بھی نور جہاں کو پہلی دفعہ ’خاندان‘ میں دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان دنوں وہ فلم بینوں کے لیے فتنہ اور قیامت تھی۔ سہگل کے بعد یہ دوسری آواز تھی جس سے وہ متاثر ہوئے۔

نور جہاں اور پران  فلم ’خاندان‘ کے ایک منظر میں۔ (فوٹو: فلِکر)

فلم ’خاندان‘ کے بارے میں نظمیں بھی اخبارات میں شائع ہوئیں۔ انقلاب اخبار میں شائع ہونے والی تین نظمیں احمد سعید کی کتاب ’لاہور، اک شہر بے مثال‘ میں نقل ہوئی ہیں۔ ان میں فلم سے وابستہ مختلف لوگوں کا نام بھی آتا ہے۔ نور جہاں کے بارے میں دو مختلف نظموں سے شعر ملاحظہ ہوں:
نور جہاں کے نغمے حسنِ جواں کے نغمے
ہر خانداں سے پیارا یہ خانداں ہمارا
جلوہ فگن ہے نور جہاں کا عروجِ حسن
سائے میں اس کے دل کا رواں کاروان دیکھ
’خاندان‘ کی سلور جوبلی کی مناسبت سے قمر جلال آبادی نے بھی نظم کہی۔
’خاندان‘ تکمیل کے مراحل میں تھی تو نورجہاں کے خاندان والے جو فلم میں ان کے کام کرنے سے ناخوش تھے انہیں قصور لے گئے۔ فلم کی شوٹنگ کھٹائی میں پڑ گئی۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے جو راہ نکالی گئی، اس کے بارے میں نامور صحافی خالد حسن نے نور جہاں کے خاکے میں لکھا ’ایک دن سٹوڈیو کی کار اسے شوٹنگ کے لیے ہیرامنڈی لاہور سے لانے کے لیے گئی تو معلوم ہوا کہ نور جہاں اپنے خاندان سمیت وہاں سے کوچ کر گئی ہے۔ سیٹھ دل سکھ پنچولی بڑا بااثر آدمی تھا چنانچہ اس نے نور جہاں کے نام وارنٹ نکلوا دیے۔ جلد ہی نور جہاں سمیت اس کے خاندان کے 40 افراد قصور سے گرفتار کر کے لاہور لائے گئے۔‘
’خاندان‘ کا نور جہاں کی فنی ہی نہیں ذاتی زندگی میں بھی بڑا اہم رول تھا۔ اسی فلم کے دوران شوکت حسین رضوی سے ان کا عشق پروان چڑھا۔
نور جہاں کے اہلِ خانہ اس قربت سے ناراض تھے، ادھر دل سکھ پنچولی بھی اس ربط ضبط سے ناخوش تھا۔ معاملات اس حد تک بگڑے کہ بات عدالت میں پہنچی جہاں نور جہاں نے پینترا بدلا اور یہ کہہ کر افیئر کے غبارے سے ہوا نکال دی کہ وہ تو شوکت حسین رضوی کو اپنا بھائی سمجھتی ہیں۔
فلم خاندان کے ہیرو اور ہیروئن کا سکینڈل بھی خبروں میں رہا۔ نور جہاں کے بقول ’بعض اخباروں نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ نور جہاں اور پران نے خفیہ شادی کر لی ہے۔‘
شوکت حسین رضوی اور پران فلمی دنیا سے تھے۔ ایک فلم کا ڈائریکٹر تو دوسرا ہیرو۔ نور جہاں نے اس زمانے میں فلمی دنیا سے باہر گورنمنٹ کالج لاہور کے ایک طالب علم حسن امین سے محبت کی پینگیں بڑھائیں۔ مال روڈ پر سول اینڈ ملٹری گزٹ کے دفتر کے پاس جہاں اب پینوراما سینٹر ہے ایک گھر میں دونوں کی ملاقات ہوتی۔

نور جہاں نے شوکت حسین رضوی سے بمبئی میں شادی کی تھی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

حسن امین کے عشق کا قصہ یوں ہے کہ موصوف نور جہاں کو سٹیج پر پرفارم کرتے دیکھ کر دل ہار بیٹھے تھے۔ نور جہاں کے پیچھے وہ قصور بھی گئے۔ خاندان کی مخالفت کے باوجود دوستی قائم رکھی۔ نور جہاں کے انتقال سے ایک سال پہلے حسن امین نے خالد حسن کی موجودگی میں نور جہاں کو فون کیا اور بتکرار کہا ’نوری مجھے معاف کر دینا۔‘
خالد حسن نے بعد میں اس سے پوچھا کہ وہ بار بار معافی کا طلب گار کیوں ہو رہا تھا تو اس نے بتایا کہ نور جہاں اس سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن اس پر ان دنوں کرکٹ کا بھوت سوار تھا۔
لاہور میں گلوکارہ اور اداکارہ کے طور پر اپنا نام اور مقام بنانے کے بعد نور جہاں سنہ 1942 میں بمبئی چلی گئیں جہاں شوکت حسین رضوی سے ٹوٹے روابط بحال ہوئے اور دونوں نے شادی کر لی۔ بمبئی میں ان کی کامیابیوں کا دائرہ پھیلتا چلا گیا۔ لاہور سے ان کی جدائی دائمی ثابت نہ ہوئی اور تقسیم کے بعد وہ شوکت حسین رضوی کے ہمراہ پاکستان آ گئیں جہاں ان کی شہرت کا ستارہ ہمیشہ چمکتا رہا۔

شیئر: