پی ٹی آئی قیادت: کچھ گرفتار، کچھ خاموش، کچھ کا ٹوئٹر بھی بولنا بند
پی ٹی آئی قیادت: کچھ گرفتار، کچھ خاموش، کچھ کا ٹوئٹر بھی بولنا بند
بدھ 24 مئی 2023 5:16
فرحان خان، اردو نیوز- اسلام آباد
تحریک انصاف کے متعدد کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت کی گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی تھما نہیں جبکہ اس جماعت کے چیئرمین عمران خان اپنے بیانات میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے 10 ہزار سے زیادہ کارکن گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ میں تیزی 9 اور 10 مئی کو ہونے والے پُرتشدد مظاہروں کے بعد لائی گئی اور متعدد رہنماؤں کو ان کے گھروں سے گرفتار کر لیا گیا۔
کچھ رہنماؤں کے ساتھ ایسا بھی ہوا کہ جب وہ ایک مقدمے میں جیل سے ضمانت پر رہا ہوئے تو گیٹ کے باہر انہوں نے کسی اور تھانے کے پولیس کو اپنا منتظر پایا۔
یوں جیل سے نکلتے ہی انہیں دوسرے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔
اس ماحول میں جہاں تحریک انصاف کی اعلیٰ سطح کی قیادت سلاخوں کے پیچھے ہے، وہیں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے، جو گرفتار تو نہیں ہوئے لیکن انہوں نے پراسرار قسم کی خاموشی اختیار کر لی ہے۔
یہ خاموشی صرف میڈیا کے محاذ پر ہی نہیں بلکہ ان میں سے بیشتر رہنماؤں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی خاموش ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی سے وابستہ رہنے والے کئی رہنما پریس کانفرنسیں کر کے نو اور 10 مئی کے واقعات کے مذمت کے ساتھ ساتھ پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جنہوں سیاست ہی کو خیرباد کہنے کا اعلان کر دیا ہے۔
اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت میں شامل افراد میں سے کون کہاں ہے؟
فواد چوہدری
فواد چوہدری کئی روز کی خاموشی کے بعد بدھ 24 مئی کو پارٹی کو خیرباد کہہ گئے۔ ان کا شمار پاکستان تحریک انصاف کے بلند آہنگ رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ وہ پارٹی کے ترجمان رہے ہیں جو ہر قسم کے میڈیا پر کافی زیادہ سرگرم رہتے تھے۔ انہیں 10 مئی کو گرفتار کیا گیا جس کے چند دن بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے ان کی ضمانت ہوئی۔
16 مئی کو ضمانت پر رہائی کے بعد وہ عدالت سے باہر آرہے تھے کہ ان کی نظر سامنے سے آنے والی پولیس پر پڑ گئی تو وہ پلٹ کر واپس بھاگے اور ضمانت کی منظوری کا تحریری حکم موصول ہونے تک عدالت ہی میں پناہ لیے رہے۔
اس دن کے بعد فواد چوہدری مکمل طور پر خاموش ہو گئے تھے اور خلافِ معمول ٹوئٹر پر بھی بہت کم سرگرم دکھائی دیے۔
19 مئی کو مزاحیہ ایموجیز پر مبنی ایک ٹویٹ کے بعد انہوں نے دیگر افراد کی چند ایک ٹویٹس کو شیئر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں لکھا۔
اسد عمر
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سیکریٹری جنرل اسد عمر امن عامہ کی بحالی کے قانون (ایم پی او) کے تحت گرفتار ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی رہائی اور جیل میں سہولیات فراہم کرنے سے متعلق متفرق درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
اسد عمر کا ٹوئٹر اکاؤنٹ 9 مئی کے بعد سے خاموش ہے۔ ان کی آخری ٹوئٹ 9 مئی کی ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں ’پاکستان کے تمام شہروں میں عوام بڑی تعداد میں نکل آئے ہیں اور تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ قوم آج اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دے گی۔‘
بدھ کو اسد عمر کے حوالے سے تازہ خبر آئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا اور انہیں اپنی دو ٹویٹس ڈیلیٹ کرنے کی ہدایت بھی کی۔
شاہ محمود قریشی
شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے وائس چیئرمین ہیں۔ انہیں 11 مئی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
شاہ محمود قریشی کو گرفتار کر کے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں منتقل کیا گیا تھا۔ ان کے اہل خانہ جیل میں ان سے ملاقات کی کوششیں کر رہے ہیں۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں بھی گردش کرتی رہی ہیں کہ شاہ محمود قریشی کو حکام نے مشروط ضمانت دینے کی پیشکش کی تھی جس میں انہیں ایک اقرار نامے پر دستخط کرنا تھے لیکن انہوں نے یہ شرط تسلیم نہیں کی۔ تاہم آزاد ذرائع سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
شاہ محمود قریشی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے آخری ٹویٹ 11 مئی کو کیا گیا جس میں انہوں نے ’اپنی گرفتاری سے قبل پیغام‘ دیا ہے۔
شاہ محمود قریشی کو 11 مئی ہی کی رات کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پیر کو شاہ محمود قریشی کے وکیل بیرسٹر تیمور ملک نے میڈیا کے نمائندوں کے سامنے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انہیں اڈیالہ سے اٹک جیل منتقل کیا جا رہا ہے۔
لیکن بعد میں منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شاہ محمود قریشی کو رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
شاہ محمود قریشی اڈیالہ جیل سے رہا ہونے کے دوبارہ گرفتار کر لیے گئے جس کے بعد پتا چلا کہ انہیں ڈی سی راولپنڈی کے حکم پر 15 دن کے لیے ایم پی او کے تحت اڈیالہ جیل میں نظربند کر دیا گیا ہے۔
شاہ محمود کی مختصر رہائی اور پھر نظربندی کے درمیان انہوں نے صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’تحریک انصاف میں ہوں اور رہوں گا۔‘
ڈاکٹر شیریں مزاری
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کو 10 مئی کی رات ان کے گھر سے گرفتار کرنے کے بعد پہلے اسلام آباد کے ایک تھانے میں اور پھر اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔
شیریں مزاری کی پہلے تو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت منظور ہوئی لیکن کچھ وقت بعد انہیں پھر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اس کے بعد تیسری مرتبہ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ سے اگلی ضمانت کے بعد ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوا۔
پیر کو شیریں مزاری کے وکیل انیق کھٹانہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ انہیں کچھ معلوم نہیں کی شیریں مزاری اس وقت کہاں ہیں۔
منگل کو پی ٹی آئی کے رہنما فرخ حبیب نے اپنے ٹویٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ شیریں مزاری کو پانچویں مرتبہ گرفتار کیا گیا ہے۔
لیکن منگل کی شام پونے پانچ بجے شیریں مزاری نے اچانک ایک پریس کانفرنس کی اور اس میں نہ صرف تحریک انصاف بلکہ سیاست ہی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
شیریں مزاری نے اپنی پریس کانفرنس میں 9 اور 10 مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات کی مذمت بھی کی۔
شیخ رشید احمد
سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد تحریک اںصاف کے اہم اتحادیوں میں سے ہیں اور وہ گزشتہ کچھ عرصے سے عمران خان کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔
شیخ رشید ان دنوں ٹوئٹر پر سرگرم ہیں۔ انہوں نے آج (منگل کو) ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’9 مئی کے حقیقی مجرموں کو سزا دیں، بے گناہوں کو رہا کریں۔‘
قبل ازیں پیر کو انہوں نے اپنی ٹویٹ میں اعلان کیا تھا کہ ’گرفتار ہونے تک ٹوئٹر کے ذریعے قوم سے رابطہ رکھوں گا۔‘
شیخ رشید کی دو تین دن کی ٹویٹس میں عمران خان کے حوالے سے کوئی خاص بات تو نہیں البتہ وہ اس وقت پارٹی بدلنے والوں کو طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
فردوس شمیم نقوی
کراچی سے گرفتار ہونے والے تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی دو دن قبل نے عدالت میں پیشی کے دوران میڈیا کے نمائندوں سے مختصر بات چیت لیکن لیکن انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔
فردوس شمیم نقوی کو کراچی سے سکھر جیل منتقل کیا گیا ہے تاہم ان کے اہل خانہ نے ان کی صحت کے مسائل کی بنیاد پر عدالت میں درخواست دائر کی ہے کہ انہیں کراچی ہی میں رکھا جائے۔
علی زیدی
علی زیدی سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کراچی کے اہم رہنما ہیں۔ گرفتار ہونے کے بعد انہوں نے بھی 9 اور 10مئی کے پُرتشدد واقعات کی مذمت تو کی لیکن پارٹی سے علیحدگی کا اعلان نہیں کیا بلکہ اس خیال کو مسترد کیا۔
ان کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ انہیں کراچی سے جیکب آباد جیل منتقل کیا گیا ہے جبکہ ان کے اہل خانہ نے کراچی کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ انہیں جیل مینوئل کے مطابق سہولیات دی جائیں۔
مسرت جمشید چیمہ اور جمشید چیمہ
تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ اور ان کے شوہر جمشید چیمہ بھی اس وقت گرفتار ہیں تاہم وہ اڈیالہ جیل میں ہیں۔
پیر کو ان کی وکیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عندیہ ظاہر کیا تھا کہ امکان ہے کہ مسرت جمشید چیمہ اور ان کے شوہر رہائی کے بعد پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر دیں۔
منگل کی شب شاہ محمود قریشی کے ساتھ ساتھ مسرت جمشید چیمہ اور ان کے کو بھی 15 دن کے لیے اڈیالہ جیل میں نظربند کر دیا گیا ہے۔
شہر یار آفریدی
پی ٹی آئی کے رہنما شہریار آفریدی کو 16 مئی کو اسلام آباد میں واقع ان کے گھر سے اہلیہ سمیت گرفتار کر لیا گیا تھا۔ انہیں بھی تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
دو دن بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے نتیجے میں ان کی اہلیہ کو رہا کر دیا گیا تھا۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہریار آفریدی کے وکیل نے درخواست دائر کی تھی کہ ان کے موکل سے اہل خانہ ملاقات کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد عدالت نے انہیں ملاقات کی اجازت دے دی۔
اعجاز چوہدری اور محمود الرشید
تحریک انصاف لاہور کے رہنما اعجاز چوہدری اور میاں محمودالرشید گرفتار ہیں۔ اعجاز چوہدری کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں جبکہ محمود الرشید لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں دہشت گردی کے مقدمے کے تحت ریمانڈ پر ہیں۔
فیاض الحسن چوہان
فیاض الحسن چوہان نے کئی دن کی خاموشی کے بعد منگل کی شام اپنی خاموشی توڑ دی اور اسلام آباد پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔
فیاض الحسن چوہان نے اپنی پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا کہ ’عمران خان کے اردگرد موجود افراد نے انہیں میرے بارے میں یہ بتایا کہ میں فوج کا آدمی ہوں۔‘
تحریک انصاف کون سے رہنما خاموش؟
جب سے تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاریاں شروع ہوئی ہیں، مختلف صوبوں سے چند رہنماؤں نے پریس کانفرنسیں کر کے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔
پارٹی چھوڑنے والوں کی اکثریت کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ اسی طرح یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ سب سے زیادہ کارکن اور رہنما بھی پنجاب ہی سے گرفتار ہوئے ہیں۔
دوسری جانب بہت سے رہنما ایسے بھی ہیں جو گرفتار بھی نہیں ہوئے لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔
ان رہنماؤں میں پی ٹی آئی کے صدر پرویز الٰہی، پرویز خٹک، سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان، سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، شبلی فراز، شاہ فرمان، عاطف خان، سینیٹر فیصل جاوید، مراد سعید اور زرتاج گل وزیر کے نام شامل ہیں۔
شفقت محمود، تیمور جھگڑا اور فرخ حبیب بھی منظر سے غائب تھے تاہم پیر کو شفقت محمود کی زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات کی اطلاعات ملی تھیں۔ فرخ حبیب بھی ٹوئٹر تک محدود دکھائی دیتے ہیں۔
خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اکثر پی ٹی آئی رہنما روپوش ہیں۔
پشاور کے ایک سینیئر صحافی کے بقول پختونخوا کے چند اہم رہنما اس وقت لاہور میں ہیں جبکہ کچھ اپنے آبائی علاقوں میں بار بار اپنی جگہ تبدیل کر رہے ہیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے پولیس کی جانب سے یہ معلومات نہیں دی جا رہیں کہ تحریک انصاف کے گرفتار کارکنوں اور رہنماؤں میں سے کون کس جیل میں قید ہے۔
گرفتار کارکنوں اور رہنماؤں کے اہل خانہ عدالتوں سے رجوع کر کے درخواستیں دائر کر رہے ہیں کہ انہیں اپنے عزیزوں کی خلاف درج مقدمات کی تفصیل اور ان کے مقام سے متعلق بتایا جائے۔
دوسری جانب اخبارات اور ٹی وی چینلز پر حکومت کی جانب سے ان تمام افراد کی تصاویر اور ویڈیوز پر مبنی اشتہارات نشر کیے جا رہے ہیں جن پر 9 اور 10 مئی کے ہنگاموں میں جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کا الزام ہے۔
کون سے رہنما بیرون ملک چلے گئے؟
تحریک انصاف کے منظر سے غائب رہنے والے کچھ رہنماؤں کے بارے میں یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ وہ بیرون ملک چلے گئے ہیں تاہم ان دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
پی ٹی آئی کے دو اہم رہنما زلفی بخاری اور شہباز گِل پہلے ہی سے ملک سے باہر ہیں۔ شہباز گِل دو دن قبل امریکہ میں پی ٹی آئی کے ایک احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے دکھائی دیے۔
زلفی بخاری کسی مظاہرے میں تو نظر نہیں آئے البتہ وہ ٹوئٹر پر وقفوں وقفوں سسے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔
سرگرم رہنماؤں کی خاموشی یا رُوپوشی؟
قبل ازیں پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ فوجی املاک پر حملوں کے ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے شروع ہونے والی ہلچل اب ان کے پارٹی کے وجود کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔
عمران خان سوشل میڈیا کے استعمال اور غیرملکی میڈیا کو انٹرویوز کے ذریعے اپنی بات کر رہے ہیں لیکن گراؤنڈ تک ان کے بیانیے کو پہنچانے والی کم و بیش تمام نمایاں رہنما یا تو گرفتار ہو چکے ہیں یا پھر انہوں نے گھمبیر قسم کی خاموشی اختیار کر لی ہے۔
ان گرفتاریوں اور خاموشیوں کے ساتھ ساتھ پریس کانفرنسوں کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے جاری ہے جس میں پی ٹی آئی سے وابستہ رہنما پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔