Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’امیدوار کون ہے فرق نہیں پڑتا،‘ کیا مزید رہنما پی ٹی آئی چھوڑنے والے ہیں؟

عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کے کارکنان فوجی تنصیبات پر حملے میں ملوث نہیں۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
پاکستان میں 9 مئی کو سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد پُرتشدد مظاہرے اور حکومت اور فوج کا تنصیبات پر حملے کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مشکلات میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔
پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ اور راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹرز میں گُھسنے کی کوشش کرنے والے افراد کا تعلق ان کی جماعت سے نہیں بلکہ یہ ایک ’سازش‘ ہے جس کے تحت انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اتحادی حکومت کا کہنا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد مظاہرے پی ٹی آئی رہنماؤں کے اُکسانے پر ہوئے اور اس کے بعد پارٹی کے متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ کئی رہنما ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔
گذشتہ دو دنوں میں پی ٹی آئی سے منسلک تقریباً ایک درجن افراد پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں جن میں قابل ذکر نام سابق وفاقی وزیر ملک امین اسلم، کراچی سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی محمود مولوی اور راجہ عامر کیانی کے ہیں۔
جبکہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کچھ اراکین پنجاب اسمبلی اور علاقائی شخصیات بھی عمران خان کی پارٹی کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔
ملک میں جاری سیاسی طلاطم میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے۔
پی ٹی آئی کی مخالف جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ ’کوئی بھی پاکستان جس کا دماغ درست ہو وہ عمران خان کے ریاست مخالف ایجنڈے کے ساتھ نہیں کھڑا ہونا چاہے گا۔‘
پی ٹی آئی رہنما علی اعوان نے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ وہ ٹولہ ہے جس کو پی ٹی آئی نے ان کی کرپشن کی شکایات اور ورکرز کے منفی فیڈ بیک کی وجہ سے گزشتہ ضمنی الیکشنز اور اب پنجاب اسمبلی کے ٹکٹس دینے سے انکار کیا اسی لیے جب ٹکٹس کا سوال ہوا تو پریس کانفرنس ہی چھوڑ گئے۔‘
ہارون نامی صارف نے لکھا کہ ’وہ یہ سوچتے ہیں کہ لوگوں پر دباؤ ڈال کر پارٹی چھوڑنے پر مجبور کرنے سے پی ٹی آئی کو نقصان ہوگا۔ پی ٹی آئی کا ہر ایک حامی عمران خان کے نام پر ووٹ ڈالتا ہے امیدوار کون ہے اس سے فرق نہیں پڑتا۔‘
مدیحہ افضل نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’عمران خان کی پارٹی کے اراکین پچھلے دو دنوں سے انہیں چھوڑ رہے ہیں۔ یہ پاکستان میں استعمال ہونے والی والی پرانی پلے بُک کا حصہ ہے جس کے تحت دباؤ ڈال کر جماعتوں کو توڑا جاتا ہے۔‘
سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پر ایسے صارفین بھی ہیں جو موجودہ حالات کا ذمہ دار خود پی ٹی آئی کو قرار دے رہے ہیں۔
تجزیہ کار وجاہت مسعود نے ایک ٹویٹ میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’ فواد چوہدری جیسے قابل احترام دوست سے ذاتی اختلاف ممکن نہیں۔ وہ کہتےہیں کہ شرمناک واقعات کی انکوائری کر کے ملوث افراد کو سزا دی جائے۔ تو کیا وہ قوم کے معصوم بچے قربان کر رہے ہیں؟ حقیقی اور واحد ذمہ دار عمران خان ہیں۔ کیا ان کی تقاریر اور بیانات اشتعال انگیز نہیں تھے؟‘
ایان نامی صارف نے ایک طنزیہ ٹویٹ میں پی ٹی آئی سے منسوب کر کے ایک نعرہ لکھا اور وہ کچھ یوں تھا کہ ’خوف کے بُت توڑ دو، پلیز ورکرز پکڑ کو، ہمیں چھوڑ دو۔‘
ملک کے سیاسی منظر نامے پر نظر رکھنے والے افراد کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید شخصیات عمران خان کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔‘

شیئر: