Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایڈی گلبرٹ، نسل پرستی جن کا کیریئر اور زندگی کھا گئی

ایڈی گلبرٹ نے ڈان بریڈمین کو زیرو پر آؤٹ کیا تھا۔ (فائل فوٹو: نیوز آسٹریلیا)
آسٹریلیا میں قدیم باشندوں (Aboriginal) سے امتیازی اور غیر انسانی سلوک کی بہت لمبی اور دل دوز تاریخ ہے۔ اس ستم رانی کے اثرات کرکٹ پر بھی مرتب ہوئے جس کی سب سے نمایاں علامت فاسٹ بولر ایڈی گلبرٹ ہے۔ اس کی تیز رفتار بولنگ کا ایک زمانے میں بڑاچرچا تھا۔ اس کے معترفین میں سب سے معروف نام، ڈان بریڈمین کا ہے، جس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنے کریئر میں گلبرٹ سے برق رفتار بولر کا سامنا نہیں کیا۔
یہ بات دو وجہوں سے نہایت اہم ہے: اول: بریڈمین کرکٹ کی تاریخ کا عظیم ترین بلے باز ہے۔ دوم: اس نے اپنے کریئر میں لاروڈ سمیت بڑے بڑے بولروں کا مقابلہ کیا۔
بریڈمین کا گلبرٹ سے 1931 میں ٹاکرا ہوا جس میں بریڈمین کو زیرو پر زیر ہونا پڑا۔ برسبین میں کھیلے گئے اس میچ میں ایڈی گلبرٹ نے کوئینزلینڈ کی نمائندگی کرتے ہوئے پہلے اوور میں نیو ساؤتھ ویلز کے بلے باز وینڈل بل کو پہلی گیند پر چلتا کیا، اس کے بعد بریڈمین کریز پر پہنچا تو وہ بھی کھاتہ کھولے بغیر آؤٹ ہو گیا۔ چھ گیندیں کھیلنے کے لیے وکٹ پراس کا قیام خاصا پریشان کن رہا۔ ایک گیند ٹوپی سے چھو کر گزری اور ایک ایسی بھاری پڑی کہ بلا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ یہ بات بھی مشہور ہے کہ ایک گیند ساری رکاوٹیں عبور کر کے باؤنڈری لائن کے پار چرچل نامی کتے کو جا لگی اور اس کا دم نکل گیا۔
1932-33 میں انگلینڈ کے بولروں نے باڈی لائن سیریز میں منفی کھیل سے کرکٹ کو داغدار کیا۔ ایڈی گلبرٹ آسٹریلین ٹیم میں ہوتا تو انگلینڈ ٹیم کو ناکوں چنے چبوا سکتا تھا۔ برسبین ٹیسٹ سے پہلے اس کا نام ممکنہ کھلاڑیوں کی فہرست میں آیا لیکن اسے آسٹریلین ٹیم میں شمولیت کے قابل نہ سمجھا گیا۔

فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کے باوجود ایڈی گلبرٹ پر قومی ٹیم کے دروازے بند رہے۔ (گیٹی امیج)

گلبرٹ کی زندگی رنج و محن سے پُر رہی۔ دکھ جھیلے۔ تحقیر اور تذلیل برداشت کی۔ اسے دوسری ریاستوں میں کھیلنے سے پہلے حکام بالا سے اجازت لینی پڑتی۔ ساتھی کھلاڑیوں میں کچھ تو اسے منہ لگا لیتے لیکن ایسے بھی تھے جنہیں اس کے ساتھ ہم کلام اور ہم سفر ہونا گوارا نہ تھا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کے باوجود قومی ٹیم کے دروازے اس پر بند رہے۔ اس کا بولنگ ایکشن مشکوک ٹھہرا۔ لیکن اس کا جرمِ حقیقی نسلی پس منظر تھا۔ اس کا خمیازہ اسے کرکٹ اور ذاتی زندگی میں برداشت کرنا پڑا۔ وہ ذہنی مریض اور شراب کا دھتی بن گیا۔ 1978 میں کسمپرسی میں اس کا انتقال ہوا۔ 30 برس بعد، 2008 میں برسبین میں اس کا مجسمہ نصب کیا گیا جس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے:
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا 
ٹیسٹ کرکٹ میں قدیم باشندوں کے داخلے کی تاریخ 1996 میں جیسن گلسپی کے ٹیسٹ کریئر کے آغار سے شروع ہوئی جس نے 71 ٹیسٹ میچوں میں 259 وکٹیں حاصل کیں۔ کئی دفعہ آسٹریلین ٹیم کی کامیابیوں میں حصہ ڈالا۔ بیٹنگ میں اس کا منفرد ریکارڈ ٹیسٹ کرکٹ میں نائٹ واچ مین کی حیثیت سے سب سے زیادہ 201 رنز(ناٹ آؤٹ) بنانا ہے۔ کرک انفو کے مطابق وہ آسٹریلین کرکٹ کی تاریخ میں پہلا تسلیم شدہ قدیم باشندہ ہے۔ اس کے بعد سکاٹ بولینڈ کو 2021 میں ٹیسٹ کیپ ملی۔ ان دونوں پر قومی ٹیم میں شمولیت کے معاملے میں خاتون کرکٹر فیتھ ٹامس کو فوقیت حاصل ہے جس نے 1958 میں ٹیسٹ کرکٹ میں قدم رکھا۔ طویل وقفے کے بعد 2019 میں ایشلی گارڈنر نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میں حصہ لیا۔
اب بات کرتے ہیں قدیم باشندوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور ویسٹ انڈیز کے مثبت کردار پر جس کے کھلاڑیوں کا آسٹریلیوی ٹیم پر غالب آنا، ستم رسیدوں کے زخموں پر پھاہا رکھنے جیسا عمل بن گیا۔

2008 میں ایڈی گلبرٹ کا برسبین میں مجسمہ نصب کیا گیا۔ (فوٹو: الچیٹرون)

کلائیو لائیڈ اور ویوین رچرڈز کی قیادت میں ویسٹ انڈیز ٹیم جس رفعت سے ہمکنار ہوئی اس کے بارے میں سائمن لسٹر نے ’فائر ان ببلیون‘ کے عنوان سے بڑی اچھی کتاب لکھی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعصب کے کیسے کیسے چرکے سیاہ فام لوگوں نے سہے۔ اس تذلیلِ مسلسل کا بدلہ انہوں نے کرکٹ کے ذریعے لیا۔
سائمن لسٹر نے کتاب کے ابتدائی حصے میں آسٹریلیوی قدیم باشندوں کی حالت زار کی جھلک دکھائی ہے۔اس نے قصہ درد کرکٹ کے رسیا پال نیومین کے توسط سے بیان کیا۔ وہ نیو ساؤتھ ویلز میں ایسی بستی کا مکین ہے جو انہیں سفید فام لوگوں سے دور رکھنے کے لیے بسائی گئی تھی۔ وہ جس زمانے میں بڑا ہو رہا تھا، اس کی کمیونٹی مخصوص دکانوں سے روزمرہ کی اشیا خریدنے پر مجبور تھی۔ وہ بتاتا ہے کہ یہ 60 کے عشرے کے اخیر اور 70 کی دھائی کے ابتدائی برسوں کی بات ہے کوئی 30 کے عشرے کی نہیں۔
پال نیومین پیدا ہوا تو آسٹریلین کے حیثیت سے اس کا عدم وجود برابر تھا۔1901 کا آئین، جس کے تحت فیڈرل اور جدید آسٹریلیا کا قیام عمل میں آیا اس میں قدیم باشندوں کا وجود تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ آسٹریلیا کے پہلے وزیراعظم ایڈمنڈ بارٹن نے ایوان نمائندگان میں تعصب سےلتھڑی تقریر کی جس سے موصوف کے انسانوں کی برابری کے بارے میں محدود تصور کا پتا چلتا ہے۔ اس نے سفید فام نسلوں کے مقابلے میں باقی نسلوں کو کمتر قرار دیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت عرصے تک یہ لوگ ووٹ دینے کے حق سے محروم رہے۔ الکوحل یہ نہیں خرید سکتے تھے۔ نہ ہی سفید فام خاتون سے بیاہ کرسکتے تھے۔ دورانِ سفر انہیں تنگ کیا جاتا۔

فاسٹ بولر جیسن گلپسی آسٹریلین کرکٹ کی تاریخ میں پہلے تسلیم شدہ قدیم باشندے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

1960-61 میں فرینک وورل کی کپتانی میں ویسٹ انڈین کی ٹیم نے آسٹریلیا میں سیریز کھیلی۔ اسے کئی اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل ہے، لیکن اہم تر بات یہ تھی کہ آسٹریلین عوام نے میزبان ٹیم کی جناب میں بڑی کشادہ دلی اور اعلٰی ظرفی دکھائی۔ دیدہ و دل فرش راہ کیا۔ اس مثبت اور غیر متعصبانہ رویے کی گواہی وورل نے دی۔ ایک طرف تو سیاہ فام مہمانوں کی یہ حقیقی پذیرائی اور دوسری جانب اپنے ’سیاہ فاموں‘ سے آسٹریلین ارباب بست وکشاد کی بدسلوکی۔ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ لیکن ویسٹ انڈین ٹیم کی آسٹریلیا سے روانگی کے کچھ ہی عرصے بعد قدیم باشندوں سے رویے میں بہتری کے آثار ہویدا ہوئے۔
1975-76 کے دورہ ویسٹ انڈیز تک آتے آتے حکومتی رویے میں سست روی سے ہی سہی لیکن تبدیلی آ چکی تھی، بہت سے امتیازی قوانین، مثلاً زرعی شعبے سے متعلق، ملک کے بعض حصوں سے ختم کر دیے گئے۔ کھیل کے میدانوں میں بھی ان کے آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہوئی۔
باکسنگ کے میدان میں لائنل روز سامنے آیا۔ ٹینس میں گولاگونگ نے ناموری حاصل کی۔ ہیری ولیمز نے 1974 کے فٹبال ورلڈکپ میں آسٹریلیا کی نمائندگی کی۔
تعصب اور نسلی تفاخر کے زخم خوردہ پال نیومین کی یکساں ڈگر پر رواں دواں زندگی میں تازگی کی لہر ویسٹ انڈین کرکٹ ٹیم کی وجہ سے اس وقت آئی جب اس نے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر ویسٹ انڈیز کے باصلاحیت کھلاڑی دیکھے جو سکور کرتے، وکٹیں لیتے۔ مزید یہ کہ اس کی کمیونٹی کےہم مزاج۔ ان کے مزاح سے، وکٹ لے کر خوشی منانے کے انداز سے، طرز گفتار سے، اس کی قبیل کے باشندے خود کو جڑا ہوا محسوس کرتے۔

’فائر ان ببلیون‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعصب کے کیسے کیسے چرکے سیاہ فام لوگوں نے سہے۔ (فوٹو: ایمیزون)

ویسٹ انڈین ٹیم 1975 میں آسٹریلیا آئی تو پال نیومین 14 برس کا ہونہار کرکٹر تھا۔ میچ کھیلنے میں ہی نہیں دیکھنے میں بھی اسے گہری دلچسپی تھی۔ ٹیسٹ میچ ٹی وی پر دیکھتا جس پر ریسپیشن اچھی نہ ہوتی تو ریڈیو سے رجوع کرتا۔ کھیلنے کے لیے جاتا تو ریڈیو کے ذریعے ٹیسٹ میچ کی کارروائی سے باخبر رہتا۔ آسٹریلیا کے بجائے ویسٹ انڈیز کو سپورٹ کرتا۔ اس کے فیورٹ کھلاڑی، جیف تھامسن، گریگ چیپل اور گیری گلمور نہیں، لارنس رو، ویوین رچرڈز اور کلائیو لائیڈ تھے۔ 
یگانگت کا یہ احساس یک طرفہ نہیں تھا۔ ویسٹ انڈین کھلاڑیوں کے دل میں بھی زیرِعتاب لوگوں کے لیے نرم گوشہ تھا۔ ان سے بہتر ان کا درد کون جان سکتا تھا سو وہ ان کی دل جوئی کرتے۔ ویوین رچرڈز کی دانست میں آسٹریلیا کو اس کی سرزمین پر ہرانا محض میچ میں کامیابی نہیں تھی بلکہ یہ پسے ہوؤں کے لیے اس فخر کا باعث بھی تھی کہ وہ جو ارفع ’دوسرے‘ ہیں انہیں ہرایا بھی جا سکتا ہے۔ رچرڈز کے خیال میں یہ سب سے اہم سندیسہ تھا جو ویسٹ انڈین ٹیم مقامی باشندوں کو دے سکتی تھی۔
رچرڈز کی اس بات سے ہمارا ذہن عمران خان کی کتاب ’میں اور میرا پاکستان‘ کی طرف منتقل ہوا جس میں شامل اس اقتباس پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں:
’پاکستان، بھارت اور ویسٹ انڈیز ایسے ممالک جب برطانیہ کے مقابل میدان میں اترتے تو یہ غلامی کا قرض چکانے کا ایک موقع بھی ہوتا۔ کرکٹ کی دنیا میں میرے دو عزیز دوست، ویسٹ انڈیز کے سر ویوین رچرڈز اور بھارت کے سنیل گواسکر اسی انداز میں سوچتے تھے۔ مجھے اندازہ تھا کہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں انگریز کا مقابلہ کرنے کی تمنا، ویسٹ انڈیز کی ٹیم کی سب سے بڑی قوتِ متحرکہ تھی۔ ویوین رچرڈز کے انداز میں خاص طور پر عزتِ نفس اور قومی وقار کی بحالی کا جذبہ بروئے کار تھا۔ وہ چیزیں جو استعمار اپنے غلاموں سے چھین لیتا ہے۔‘

شیئر: