Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ کہنا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا درست نہیں‘

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فوج کی تحویل میں 102 افراد ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی سویلین کسی فوجی کو بغاوت پر اکساتا ہے تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو سکتا ہے۔ 
جمعے کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا۔ 
انھوں نے کہا کہ میری درخواست دیگر درخواستوں سے الگ ہے۔
’میں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا۔ میرا یہ مؤقف نہیں کہ سویلینز کا آرمی ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ سویلینز کے آرمی عدالت میں ٹرائل ہوتے رہے ہیں۔ میں نے تحریری معروضات بھی جمع کرا دی ہیں۔‘ 
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ نے آرمی ایکٹ کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟
فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ’میرا یہ مؤقف نہیں ہے کہ آرمی ایکٹ کی کوئی شق غیرقانونی ہے۔ میرا مؤقف ہے کہ من پسند لوگوں کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے۔ آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص سویلینز کا ٹرائل خلاف آئین ہے۔‘ 
اس پر جسٹس عائشہ ملک نے  استفسار کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟ کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟ 
جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ ’آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تو ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو۔ سویلینز نے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟ جب آپ آرمی ایکٹ چیلنج نہیں کر رہے تو قانون کی بات کریں۔‘ 

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟ (فائل فوٹو)

جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ ’یہ بتائیں کیسے فوج کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا کہ ان افراد نے جرم کیا ہے؟ سول ٹرائل چل رہا ہے تو فوج کیسے فیصلہ کر لیتی ہے کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کر دو؟ فوج کا اندرونی طریقہ کار کیا ہے جس میں طے ہوتا ہو کہ سویلین کو ہمارے حوالے کر دو؟ 
’کیا آرمی اتھارٹیز یہ فیصلہ بھی کر سکتی ہیں کہ سویلین کو ہمارے حوالے کر دو؟ اگر کسی کا سول کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے تو کیا فوج اس کی حوالگی کا کہہ سکتی ہے؟‘  
عدالت کے استفسار پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ یہی تو میری دلیل ہے کہ فوج سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے۔ فوج انسداد دہشت گردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ کا اطلاق شہریوں پر ہوتا ہے۔ کسی حاضر سروس فوجی افسر کو قومی سلامتی کے خلاف سازش کے لیے اکسانا سنگین جرم ہے۔ آرمی ایکٹ کی شقوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

9 مئی کے واقعات کے بعد  102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سویلینز کے ٹرائل کے لیے فوجی عدالت غیر معمولی حالات میں ہی فعال ہو سکتی ہے۔ 
جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس صورت میں سویلینز کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے جب وہ بیرونی سازش کا حصہ ہوں۔ وقت آ چکا ہے کہ کھل کر حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے۔
عدالت نے درخواستوں پر سماعت پیر 26 جون کی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی اور چیف جسٹس نے کہا کہ ’پیر کو سلمان اکرم راجہ کے دلائل سے سماعت کا آغاز کیا جائے گا، ازخود نوٹس لیں گے اور نہ جوڈیشل آرڈرکریں گے لیکن تمام چیزیں نوٹ کر رہے ہیں۔ کوشش ہو گی کہ اس کیس کا نتیجہ منگل تک نکل آئے۔‘

شیئر: