Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ، پاکستان کو کیا کچھ کرنا ہوگا؟

آئی ایم ایف بورڈ کی 12 جولائی کو ہونے والی میٹنگ میں اس سٹاف لیول معاہدے کی منظوری دی جائے گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان تین ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی معاہدہ (ایس بی اے) ہو گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ پرانے توسیعی فنڈ سہولت (ای یف ایف) پروگرام کے بجائے ایس بی اے کے تحت آتا ہے۔
پاکستان نے 2019 میں آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا جس کی میعاد جمعے کو ختم ہونے والی تھی۔
آئی ایم ایف کے مطابق سٹینڈ بائی معاہدہ ای یف ایف کے تحت کی جانے والی ’کوششوں‘ کی بنا پر ہی ہوا ہے۔
آئی ایم ایف بورڈ کی 12 جولائی کو ہونے والی میٹنگ میں اس سٹاف لیول معاہدے کی منظوری دی جائے گی۔

نئے معاہدے کے بنیادی نکات کیا ہیں؟

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے پاور سیکٹر کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے، جس نے لاگت کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے ٹیرف میں ’بروقت‘ اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ انتخابات کے اس سال میں پہلے سے ہی ریکارڈ بلند افراط زر کے باوجود صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کے مرکزی بینک کو تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کے پیش نظر بیرونی ادائیگیوں پر قابو پانے کے لیے لگائی گئی درآمدی پابندیوں کو واپس لینا چاہیے۔ پاکستان کے پاس ذخائر تین ارب 50 کروڑ ڈالر کے ذخائر ہیں، جو ایک ماہ کی کنٹرول شدہ درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بمشکل کافی ہیں۔

آئی ایم ایف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نظرثانی شدہ سالانہ بجٹ کو منصوبہ بندی کے مطابق لاگو کیا جائے۔ (فائل فوٹو: بلومبرگ)

پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ ایکسچینج ریٹ پر سرکاری کنٹرول ختم کرے اور اسے مارکیٹ کے مطابق کرے اور ایکسچینج ریٹ کی مختلف مارکیٹوں کو ختم کرکے قیمتوں میں یکسانیت لائے۔
سٹیٹ بینک کو مہنگائی کو کم کرنے کے لیے ’متحرک‘ رہنے کو بھی کہا گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ سرکاری اداروں میں ہونے والے نقصانات حکومتی خزانے کے لیے نقصان کا باعث ہیں اور انہیں ایک مضبوط گورننس کی ضرورت ہو گی۔ حکومت نے نجکاری کے رکے ہوئے عمل کے لیے صرف 15 ارب روپے کا بجٹ رکھا ہے۔

مزید فنڈنگ

توقع سے زیادہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ کے باوجود معاہدے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کو کثیرالجہتی اور دو طرفہ مالی امداد کو متحرک اور جاری رکھنا ہو گا۔
آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد پاکستان کو اب دوست ممالک سے تین ارب ڈالر ملنے کی امید ہے جبکہ چین جس کا پاکستان نے سب سے زیادہ قرض ادا کرنا ہے، اس کی جانب سے قرضوں کی تجدید بھی نہایے اہم ہو گی۔
پاکستان کو رواں برس کے آغاز میں ایک بین الاقوامی ڈونر کانفرنس میں اس سے کیے گئے وعدوں کے لیے اخراجات کے فریم ورک کی تکمیل اور تعمیر کو یقینی بنانا ہو گا۔ پاکستان سے 2022 میں آئے تباہ کن سیلاب سے بحالی میں مدد کے لیے نو ارب ڈالر سے زائد امداد کے وعدے کیے گئے تھے۔
پاکستان کو مالی سال 2024 میں بین الاقوامی قرضوں کی خدمات سمیت اپنی بیرونی ادائیگیوں کے لیے 22 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف نے بجلی کی لاگت کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے ٹیرف میں ’بروقت‘ اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

’پالیسی پر مستقل عمل درآمد‘

آئی ایم ایف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نظرثانی شدہ سالانہ بجٹ کو منصوبہ بندی کے مطابق لاگو کیا جائے، اور حکام غیر بجٹ اخراجات یا ٹیکس میں چھوٹ کے دباؤ کا مقابلہ کریں۔
معاہدے میں کہا گیا ہے کہ مشکل چیلنجوں کی روشنی میں پروگرام کا مکمل اور بروقت نفاذ اس کی کامیابی کے لیے اہم ہو گا۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے اپنے موجودہ چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے ’پالیسی پر مستقل عمل درآمد‘ اور ’مالیاتی نظم و ضبط‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

شیئر: