سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے جواب جمع کرا دیا ہے۔
پیر کو اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروایا جس میں کہا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔ نو مئی کو ملٹری املاک تنصیبات کو منظم انداز میں ہدف بنایا گیا۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ ’حکومت نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے حوالے سے 21 مراحل بتائے ہیں۔ کور کمانڈر ہاؤس، جی ایچ کیو، پی اے ایف بیس پر ساڑھے پانچ بجے حملہ کیا گیا۔‘
حکومت نے موقف اپنایا ہے کہ مختصر وقت میں ملک بھر میں ملٹری املاک کونشانہ بنانا منظم منصوبے کا ثبوت ہے۔ پنجاب میں تشدد کے 62 واقعات میں 250 افراد زخمی ہوئے۔‘
حکومت نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت قرار دے کرخارج کی جائیں۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ ’آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ آئینِ پاکستان سے پہلے کے موجود ہیں جنہیں آج تک چیلنج نہیں کیا گیا۔ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اٹھائے گئے تمام اقدامات قانون کے مطابق درست ہیں۔‘
حکومت نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ’سپریم کورٹ براہِ راست اس کیس کو نہ سنے بلکہ فوجی عدالتوں کے خلاف کیس فل کورٹ کو سننا چاہیے۔‘