Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پرویز خٹک کی نئی پارٹی تحریک انصاف کو سیاسی مات دے سکے گی؟

سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک نے نئی سیاسی جماعت ’پی ٹی آئی پارلیمنیٹیرینز‘ کے قیام کا اعلان کر دیا ہے جس میں سابق وزیراعلٰی محمود خان اور سابق صوبائی وزرا کے علاوہ 57 سابق اراکین اسمبلی کے شامل ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
پیر کو پشاور کے نجی شادی ہال میں پرویز خٹک نے نئی سیاسی پارٹی کا اعلان کیا۔ ’پی ٹی آئی پارلیمنیٹیرینز‘ میں خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلٰی محمود خان، سابق صوبائی وزیر اشتیاق ارمڑ، ضیا اللہ بنگش سمیت سابق ایم این اے اور دیگر رہنماؤں نے بھی شمولیت اختیار کی۔
پرویز خٹک نے پارٹی اجلاس میں دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے 57 رہنما ان کے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کا صفایا ہو گیا ہے کیونکہ ریاست مخالف بیانیے کی وجہ سے پی ٹی آئی کو نقصان پہنچا۔

نئی پارٹی میں شامل ہونے والے رہنما ووٹ بینک رکھتے ہیں؟

خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے پشاور کے سینیئر صحافی محمود جان بابر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پارلیمنیٹیرینز میں شامل ہونے والے زیادہ تر رہنما 2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی وجہ سے کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے اپنے ووٹ نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان میں اکثر ایسے بھی شامل ہیں جن سے ورکر یا ووٹر ناراض ہے۔ اسی لیے مجھے نہیں لگتا کہ یہ پی ٹی آئی کے لیے کوئی خطرہ ثابت ہوں گے۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ صوبے کے دو سابق وزرائے اعلٰی اس نئی جماعت کا حصہ بنے ہیں مگر اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔ 
’یہی چہرے پرانے پراجیکٹ میں استعمال ہوئے تھے۔ اس لیے اب انصاف کی تھوڑی بہت جو توقع تھی وہ ختم ہوگئی ہے، کیونکہ ان پر کرپشن کے الزامات تھے اور اب ان کیسز میں برآمدگی کی امید بھی ختم ہوگئی۔ یہ عوام کا سب سے بڑا نقصان ہے۔‘ 
سینیئر صحافی صفی اللہ گل کے مطابق ’پرویز خٹک کے پاس گنے چنے الیکٹیبلز ہیں، باقی سب پی ٹی آئی کی مرہون منت سیاست میں آئے اور کامیاب ہوئے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے ووٹ زیادہ ہیں ہاں البتہ کہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے کچھ حد تک کامیاب ہوجائیں گے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بہت زیادہ ہے۔ اگر صاف و شفاف الیکشن ہوئے تو ان کے لیے سیٹیں نکالنا مشکل نہیں ہو گا۔ 

کن رہنماؤں نے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز میں شرکت سے انکار کیا؟

پرویز خٹک کی جانب سے پی ٹی آئی کے تقریباً تمام رہنماؤں کو نئی جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی، تاہم بیشتر رہنماؤں نے معذرت کر لی۔ مردان، ملاکنڈ اور جنوبی اضلاع کے کچھ سابق ایم پی ایز پرویز خٹک کو حامی بھر کر عین وقت پر پیچھے ہٹ گئے۔
سابق صوبائی وزیر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ پرویز خٹک کے قریبی ساتھی کی جانب سے ان سے دو بار رابطہ کیا گیا تھا مگر نظرانداز کرنے کی وجہ سے پھر رابطہ نہ ہوا۔

پرویز خٹک کی نئی جماعت کا اجلاس پشاور میں جھگڑا کے مقام پر ایک نجی شادی ہال میں منعقد ہوا (فوٹو: سکرین گریب)

ان کا کہنا تھا کہ نوشہرہ میں سابق وزیر خلیق الزمان اور میاں جمشید مرحوم کے خاندان نے بھی پرویز خٹک کا ساتھ دینے سے انکار کیا۔

سکیورٹی کے غیرمعمولی انتظامات کیوں کیے گئے؟

پرویز خٹک کی نئی جماعت ’پی ٹی آئی پارلیمنیٹیرینز‘ کا اجلاس پشاور میں جھگڑا کے مقام پر ایک نجی شادی ہال میں منعقد ہوا۔ اجلاس سے پہلے سکیورٹی کے فول پروف انتظامات نظر آئے۔ شادی ہال کے اردگرد پانچ سو میٹر تک کسی گاڑی کو پارکنگ کی اجازت نہیں تھی۔
شادی ہال کے گیٹ پر نام دیکھ کر گاڑیوں کو اندر جانے کی اجازت دی گئی، جبکہ میڈیا کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ملی۔ اجلاس میں آنے والے شرکا کی ویڈیوز بنانے پر چار صحافیوں سے موبائل فون چھین کر حراست میں لے لیا گیا جن کو بعد میں چھوڑ دیا گیا۔

’پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز‘ میں درحقیقت 57 اراکین اسمبلی شامل ہیں؟ 

سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ پی ٹی آئی کے 57 سابق اراکین اسمبلی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کو پیارے ہو گئے ہیں، مگر ان رہنماؤں کے نام منظر عام پر آنے کے بعد ان کی جانب سے تردیدی بیانات بھی سامنے آنے لگے۔

تحریک انصاف کے صوبائی صدر علی امین گنڈا پور نے موقف اپنایا کہ ’سب کا ووٹ آج بھی عمران خان کا ہے۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

 مردان سے سابق ایم پی اے افتخار مشوانی کا نام بھی پارلیمنیٹیرینز میں شامل ہونے والوں کی فہرست میں ظاہر کیا گیا، تاہم انہوں نے اپنے ویڈیو بیان میں اس کی تردید کردی۔
سابق ایم پی اے وزیر زادہ نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے پرویزخٹک کو ہامی نہیں بھری اور نہ عمران خان کو چھوڑنے کا سوچ سکتے ہیں۔ 
دوسری جانب خیبرپختونخوا تحریک انصاف کے صوبائی صدر علی امین گنڈا پور نے موقف اپنایا کہ ’سب کا ووٹ آج بھی عمران خان کا ہے۔ پرویز خٹک کی سیاست اپنے حلقے تک تھی۔ عمران خان کی وجہ سے یہ لوگ پارلیمنٹیرینز بنے اور آج اسی سے بے وفائی کررہے ہیں۔‘
علی امین گنڈاپور کے مطابق ’الیکشن میں ان کو لگ پتا جائے گا کیونکہ نظریاتی ورکرز کے علاوہ عام آدمی کا ووٹ بھی عمران خان کا ہے۔‘

شیئر: