Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جنازے میں شرکت کے لیے آئے اور پوری رات سڑک پر گزارنی پڑی‘

سینکڑوں مسافر اس وقت کوئٹہ، مچھ ، ڈھاڈر، سبی، نصیرآباد اور جعفرآباد میں پھنسے ہوئے ہیں (فوٹو: فیس بک بلوچستان ویدر)
’ہم نے اپنے قریبی رشتہ دار کے جنازے میں شرکت کے لیے ہنگامی طور پر سکھر جانا تھا، لیکن راستہ بند ہونے کی وجہ سے ہمیں پوری رات سڑک پر گزارنی پڑی۔‘
یہ کہنا ہے سکھر کے رہائشی جاوید جھکرانی کا جو اہلخانہ کے ہمراہ تفریح کی غرض سے کوئٹہ آئے ہوئے تھے اور حالیہ بارشوں کے بعد بلوچستان کو سندھ سے ملانے والی کوئٹہ سکھر این 65 شاہراہ کی بندش کی وجہ سے گزشتہ تین دنوں سے کوئٹہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
جاوید جھکرانی نے بتایا کہ ’تین روز قبل ہمیں اطلاع ملی کہ ہمارے ایک قریبی رشتہ دار کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس لیے ہم نے فوری طور پر سکھر جانے کا فیصلہ کیا، لیکن ضلع کچھی کے علاقے مچھ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ پنجرہ پل کے مقام پر راستہ بند ہے۔ ہم نے پھر بھی آگے جانے کا فیصلہ کیا کہ ہوسکتا ہے کہ راستہ کھل جائے مگر رات بھر سڑک پر انتظار کرنے کے باوجود ہمیں واپس کوئٹہ آنا پڑا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے واپسی کا راستہ بھی کئی گھنٹوں تک بند رہا اور اہلیہ اور بچوں کو کئی گھنٹوں تک بھوکے پیاسے ویران پہاڑی علاقے میں انتظار کرنا پڑا۔‘
جاوید جھکرانی کی طرح سینکڑوں مسافر اس وقت کوئٹہ، مچھ ، ڈھاڈر، سبی، نصیرآباد اور جعفرآباد میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ ان علاقوں کو آپس میں ملانے والا واحد راستہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے گذشتہ تین دنوں سے بند ہے۔
راستے کی بندش کی وجہ سے کوئٹہ سے تقریباً 110 کلومیٹر دور کوئٹہ سکھر این 65 شاہراہ پر دریائے بولان کے اوپر بنایا گیا ’پنجرہ پل‘ کی عدم تعمیر ہے جو گذشتہ سال اگست میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے سیمنٹ کے پائپ اور مٹی ڈال کر عارضی راستہ بنایا تھا۔
اسسٹنٹ کمشنر مچھ چوہدری اویس افضل نے اردو نیوز کو بتایا کہ کئی دنوں سے جاری بارشوں کے بعد سیلابی ریلا عارضی راستے کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔
انہوں نے بتایا کہ تمام مسافروں کو وہاں سے محفوظ طریقے سے نکال کر واپس کوئٹہ یا پھر سبی کی طرف بھیج گیا ہے، تاہم کچھ بڑی گاڑیاں لوڈ ہونے کی وجہ سے وہاں پھنسی ہوئی ہیں۔
ضلع کچھی میں محکمہ ایری گیشن کے عہدے دار ثناء اللہ نے بتایا کہ پنجرہ پل کے قریب دریائے بولان میں پانی کا بہاؤ معمول سے بہت زیادہ ہے۔ منگل کو پانی کا بہاؤ سات ہزار کیوسک اور پھر کم ہوکر چار ہزار کیوسک تک رہا۔
انہوں نے بتایا کہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں مزید بارشیں نہ ہوئیں تو دریائے بولان میں پانی کا بہاؤ کم ہونے پر ایک سے دو دن میں آمدروفت بحال ہوسکے گی۔
پنجرہ پل کے دونوں طرف پھنسے ٹرک ڈرائیوروں نے بتایا کہ وہ پیدل یا موٹر سائیکل  پر جاکر بہت دور سے خوراک لانے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے شکایت کی کہ ویران علاقے میں واقع ہوٹل انہیں تین گنا زیادہ قیمت پر خوراک فروخت کر رہے ہیں۔

طاہر بلوچ نے بتایا کہ حکومت ایک سال گزرنے کے باوجود سیلاب سے تباہ ہونے والے پل اور راستے اب تک دوبارہ نہیں بنا سکی (فوٹو: ڈیلی انتخاب)

جاوید جھکرانی کا کہنا ہے کہ ’قریب کوئی متبادل راستہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے کوئٹہ سے لورالائی اور پھر ڈیرہ غازی خان اور ملتان کے لمبے راستے سے سکھر جانے کا فیصلہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ راستہ بھی فورٹ منرو کے مقام پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہے۔‘
سبی کے رہائشی طاہر بلوچ نے بتایا کہ حکومت ایک سال گزرنے کے باوجود سیلاب سے تباہ ہونے والے پل اور راستے اب تک دوبارہ نہیں بنا سکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عارضی راستہ بھی بہت خراب تھا جو ہر دوسرے تیسرے روز بند رہتا تھا۔ سبی اور کوئٹہ کے درمیان سفر کرنا اب بہت مشکل ہوگیا ہے۔ لوگ مریضوں کو کوئٹہ کے بجائے سکھر اور سندھ کے دوسرے شہر لے جانے پر مجبور ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ سال ستمبر میں وزیراعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے ہمراہ دورہ کرکے پل کا دورہ کیا تھا اور اس کی جلد تعمیر کا وعدہ کیا تھا، لیکن اب تک پل کی تعمیر کا کام شروع نہیں ہوسکا ہے۔
بلوچستان حکومت نے وفاقی حکومت اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو پنجرہ پل کی تعمیر کا کام شروع نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ و پی ڈی ایم اے میر ضیاءاللہ لانگو کا کہنا ہے کہ این ایچ اے کی کارکردگی بلوچستان میں مایوس کن ہے۔ راستوں کی بحالی پر این ایچ اے نے کوئی پیشرفت نہیں کی راستے بند ہونے پر عوام سراپا احتجاج ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’این ایچ اے اپنا قبلہ درست کرے اور پنجرہ پل کی تعمیر کا کام فوری شروع کرے۔‘ وزیراعلٰی بلوچستان کے ترجمان بابر یوسفزئی کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت وزیراعلیٰ کے بارہا احتجاج کے باوجود بلوچستان میں بحالی کے کاموں کے لیے فنڈز جاری نہیں کر رہی۔
پنجرہ پل کی عدم تعمیر کے خلاف گذشتہ ماہ جون میں دس نوجوانوں نے کوئٹہ سے متاثرہ پل کے مقام تک 110 کلومیٹر پیدل مارچ کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔
این ایچ اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر امداد حسین سولنگی نے اردو نیوز کو بتایا کہ این ایچ اے کی بھاری مشینری موقع پر موجود ہے، لیکن سیلابی ریلے کی شدت کی وجہ سے کام شروع نہیں کیا جاسکا۔ انہوں نے کہا کہ جونہی پانی کا بہاؤ کم ہوگا تو راستے کی بحالی کا کام شروع کردیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پل کی تعمیر میں ڈیڑھ سے دو سال لگ سکتے ہیں اس لیے این ایچ اے نے ٹریفک کے بلاتعطل بہاؤ کے لیے پہلے سے بہتر نیا عارضی راستہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

این ایچ اے حکام کے مطابق بلوچستان میں گذشتہ سال آنے والے سیلاب سے 18 بڑے پل تباہ ہوئے (فوٹو: فیس بک بلوچستان ویدر)

انہوں نے بتایا کہ دو سو سے تین سو میٹر چوڑائی کا کنکریٹ کا عارضی راستہ بنانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس میں ایک سے دو ماہ لگ سکتے ہیں۔ تکمیل کے بعد ٹریفک کی روانی میں بہتری آئے گی۔
این ایچ اے حکام کے مطابق بلوچستان میں گذشتہ سال آنے والے سیلاب سے 18 بڑے پل تباہ ہوئے تھے جن کی تعمیر نو پر 20 ارب روپے سے زائد لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
امداد حسین سولنگی نے کہا کہ ان میں سے پنجرہ پل کی دوبارہ تعمیر کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک سے معاملات طے پائے گئے ہیں اگست میں اس پر باقاعدہ کام شروع ہوگا۔ پل کی تعمیر میں ڈیڑھ سے دو سال لگیں گے اس لیے دریائے بولان پر ایک عارضی پل بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
پاکستان ریلویز نے صورتحال کے پیش نظر کوئٹہ اور سبی کے درمیان شٹل سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کوئٹہ میں پاکستان ریلویز کے کنٹرولر محمد کاشف نے اردو نیوز کو بتایا کہ منگل کو پہلی شٹل ٹرین سبی سے کوئٹہ چلائی گئی جس میں تقریباً بارہ سو سے زائد مسافروں کو کوئٹہ پہنچایا گیا۔ یہ تعداد کوئٹہ سے پنجاب کے درمیان چلائی جانے والی ٹرین کے مسافروں سے زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بدھ کی صبح ساڑھے آٹھ بجے اور ساڑھے نو بجے کوئٹہ سے دو شٹل ٹرینیں اور پھر اڑھائی بجے سبی سے کوئٹہ کے لیے ایک شٹل ٹرین چلائی جائے گی۔

شیئر: