Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماضی سے کب سبق سیکھیں گے؟ ماریہ میمن کا کالم

حکومت پر مختلف بل جلد بازی میں منظور کروانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
ماضی کا یہ خاصہ ہے کہ کوئی بھی اس سے سبق نہیں سیکھتا۔ انفرادی سطح پر اس طرح کی لا علمی اور ناعاقبت اندیشی کا خمیازہ فرد تک محددو ہوتا ہے مگر جب سیاستدان اور حکمران دور اندیشی کو بالائے طاق رکھ کر قلیل عرصے کے مفادات کو سامنے رکھ کر دور رس فیصلے کریں تو ان کی فہم و فراست پر شک بھی ہوتا ہے اور افسوس بھی۔
اتوار کو سینیٹ کا اجلاس بلایا گیا جس میں دھڑا دھڑ بل پیش ہوئے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس روز ہی حکومت نے اگلے دو دن عام تعطیل کا بھی اعلان کیا اور گزشتہ دن ہی یوم عاشور گزرا ہے۔
کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ قانون سازی اور پارلیمنٹ کی کارروائی تو حالات جنگ میں بھی جاری رہنی چاہیے۔ یقیناً ایسا ہی ہونا چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ یہاں پر کارروائی آخر ہے کیا؟
ایک طرف انسداد انتہا پسندی کا بل پیش کیا گیا جس کے بارے میں جماعت اسلامی کے سینیٹر عندیہ دے رہے ہیں کہ یہ سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔ حکومت کے اپنے اتحادی سینیٹرز نے اس کو اپنے ہی ہاتھ کاٹنے کے مترادف قرار دیا ہے مگر حکومت مستقبل کی پیشن گوئیوں سے ماورا ہے۔
دوسری طرف قانون سازی سے کوئی دو درجن بھر سرکاری یونیورسٹیاں بن رہی ہیں اور نئی سے نئی ترامیم بھی آ رہی ہیں۔ اس سے کچھ دن پہلے انتخابات کے قانون میں ترمیم ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر قوانین بشمول صحافتی آزادی کے بارے میں قانون بھی خبروں میں رہے ہیں۔
قوانین ہی نہیں اربوں بلکہ کھربوں کے منصوبوں کا روز افتتاح ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے اربوں روپے ارکان اسمبلی کو بطور گرانٹ دیے جا چکے ہیں۔ ایسا اس وقت ہو رہا ہے جب حکومت کے جانے میں ایک ہفتہ رہ گیا ہے، ملک میں ایک بار پھر سیلاب کا خدشہ ہے، بجلی کی قیمت بڑھا دی گئی ہے اور خیبر پختونخواہ میں 2009-2010 جیسے حالات پھر سامنے آ رہے ہیں۔ 
ن لیگ کا ایک ریکار ڈ بہرحال پکا ہے۔ جس جس قانون اور اقدام کو انہوں نے شوق سے بنایا اسی کے شکنجے میں یہ بعد میں آئے۔
 سب سے پہلے نواز شریف 1999 میں اپنے ہی بنائے گئے انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت سز ا یاب ہوئے۔ پیکا 2015 ن لیگ نے بنوایا اور پھر اسی کا سامنا بھی کیا۔

حکومت کی کوشش ہے کہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے پہلے زیادہ سے زیادہ بل منظور کروا لیے جائیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اسی طرح نیب کے قوانین میں جب پیپلز پارٹی ترامیم کرنا چاہتی تھی تو ان کو روکا اور بعد میں نیب کے قوانین کا سامنا کیا۔ حتیٰ کہ باسٹھ تریسٹھ دفعات جس کے تحت میاں نواز شریف نااہل ہوئے ان دفعات کو بھی ن لیگ کی آشیرباد حاصل تھی۔
نا صرف عام قوانین بلکہ سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے خاص طور پر اقدامات سے بھی نئی روایات  ڈالی جا رہی ہیں۔ سرکاری وسائل جس طرح لگائے جا رہے ہیں اس سے بھی ایک نیا رستہ کھولا جا رہا ہے جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی خود سرکاری فیصلوں پر احتساب کا عمل بھگت چکے ہیں۔
اب پھر زور و شور سے قانون سازی ہو رہی ہے مگر ماضی کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ حکومتیں آتی جاتی ہیں مگر قوانین رہ جاتے ہیں۔ اس طرح کے قوانین سے ایسے ایسے دروازے کھل رہے ہیں جن کو یہ حکومتی اتحاد خود بھی بند نہی کر سکے گا۔
پیپلز پارٹی بڑی آسانی سے کچھ خاموش تماشائی اور کچھ علامتی اعتراضات کے ساتھ اپنے آپ کو علیحدہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر تاریخ کے سامنے ان کا بھی اس سب میں برابر کا کردار ہے۔
جہاں تک ن لیگ کی بات ہے تو انہوں نے جمہوری روایات کے ساتھ ساتھ اب علامتی وابستگی کی بھی پرواہ چھوڑ دی ہے۔ انہوں نے اپنے وزیر خزانہ کو ہی نگران وزیر اعظم بنانے کے اعلان کے ساتھ پیپلز پارٹی کو بھی مشکل میں  ڈال دیا۔ ابھی بھی کچھ بعید نہیں کہ آگے ان کی پٹاری میں کون کون سے سرپرائیز ہیں۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد end of history کی اصطلاح مقبول ہوئی تھی۔ موجودہ حکومت کے لیے بھی شاید اب تاریخ  کا اختتام سامنے ہے۔ اس لیے انہوں نے ماضی کو بھلانے اور تاریخ کو فراموش کرنے کا ارداہ کر لیا ہے۔ ان کو شاید کوئی یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائے کہ وہ تو تاریخ کو بھلا سکتے ہیں مگر تاریخ ان کو نہیں بھلائے گی جس طرح ان سے پہلے ادوار ماضی کا حصہ ہیں۔

شیئر: