Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اغوا کاروں کی قید میں مسکرانا اور اپنے آپ کو انسان سمجھنا بھول گیا تھا: شہباز تاثیر

شہباز تاثیر کا کہنا ہے کہ انہیں مسکرانا اجنبی لگتا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
شدت پسند تنظیم اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) کی جانب سے اغوا اور پھر پانچ سال تک ان کی قید میں رہنے والے  شہباز تاثیر کا کہنا ہے کہ ّمیں قید کے دوران اس احساس کو ہی بھول گیا تھا کہ مسکرانا کیسا ہوتا ہے۔ٗ
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ساتھ انٹرویو میں اپنے پولیس محافظ کے ہاتھوں قتل ہونے والے پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے صاحبزادے کا کہنا تھا کہ ’اب میں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ خوف کے بغیر جینا ہے۔‘
’مجھے یاد ہے کہ جب مجھے مسکرانا کتنا اجنبی لگتا تھا۔ میں طویل عرصے تک ہنسا نہیں تھا۔‘
شہباز تاثیر کی کتاب ’لاسٹ ٹو دی ورلڈ‘ کی رونمائی گذشتہ نومبر کو اس وقت ہوئی تھی جب افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد پاکستان کے افغانستان کے ساتھ ملحق علاقوں میں تشدد اور بھتہ خوری کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔
شہباز تاثیر کو لاہور میں ان کے گھر کے قریب سے اس وقت اغوا کیا گیا جب ان کے والد کو اپنے پولیس گارڈ کے ہاتھوں قتل ہوئے چند ماہ ہی گزرے تھے۔
شہباز تاثیر کو شدت پسند تنظیم اسلامک موومنٹ آف ازبکستان نے اغوا کیا تھا جس پر پاکستان میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات بشمول کراچی ایئرپورٹ پر حملے کا الزام ہے۔
اغوا کے بعد کیٹامین نامی نشہ دے کر اور برقعہ پہنا کر شہباز تاثیر کو لاہور سے میرعلی پہنچایا گیا تھا۔
شہباز تاثیر کی رہائی کے لیے آئی ایم یو نے بطور تاوان بہت بڑی رقم اور 30 گرفتار شدت پسندوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ شہباز تاثیر کے مطابق تنظیم کے مطالبات ایسے تھے کہ پورے نہیں کیے جاسکتے تھے۔

شہباز تاثیر کا کہنا ہے کہ اغواکاروں نے انتہائی بہیمانہ طریقے سے ان پر تشدد کیا (فوٹو: اے ایف پی)

شہباز تاثیر کی کتاب کے مطابق ان کو اغوا کرنے والا پہلا شخص محمد علی بہت ہی اذیت پسند تھا جن کے حکم پر نہ صرف ان کے ناخنوں کو نکالا گیا تھا بلکہ ان کی منہ کو بھی سلوایا گیا تھا۔
شہباز تاثیر کا کہنا ہے کہ اغواکاروں نے انتہائی بہیمانہ طریقے سے ان پر تشدد کیا اور ویڈیو بناتے رہے۔
’اور ان ویڈیوز کو میرے خاندان والوں کو بھیجا جاتا رہا جو کہ بہت ہی توہین آمیز اور انسانیت سوز حرکت تھی۔‘
ان کے مطابق ’اس طرح آپ ایک شخص پر تشدد نہیں کر رہے بلکہ کئی افراد کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں۔‘
اغواکاروں کی جانب سے ناز و نعم میں پلے شہباز تاثیر کو بیڑیاں پہنا کر فرش پر رکھا گیا اور چھ ماہ سے زائد عرصے تک صرف بکرے کی چربی کے ساتھ روٹی کھلائی جاتی رہی۔
’اس ماحول میں مجھ میں یہ احساس ہی ختم ہوگیا تھا کہ میں انسان ہوں اور میں انسانی احساسات سے عاری ہوگیا تھا۔‘
سنہ 2015 میں آئی ایم یو کے افغان طالبان کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ طالبان نے شہباز تاثیر کے اغواکاروں کو شکست دے کر ان سے ان (شہباز تاثیر) کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

شہباز تاثیر کی رہائی 29 فروری 2016 کو اس دن ہوئی جس روز ان کے والد کے قاتل کو پھانسی دی گئی (فوٹو: اے ایف پی)

کئی ماہ بعد جب افغان طالبان کو پتا چلا کہ ان کے ایک سینیئر رہنما نے تاثیر کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان کی آئی ایم یو سے مذاکرات کروانے کی کوشش کی تھی تو انہوں نے شہباز تاثیر کو رہا کر دیا۔
رہائی کے بعد شہباز تاثیر افغانستان کے صوبے اروزگان سے بلوچستان تک پہنچنے کے لیے ایک ہفتے تک پیدل چلتے رہے جہاں سے انہوں نے اپنی والدہ کو ایک ہوٹل سے فون کیا۔
اتفاقاً شہباز تاثیر کی رہائی 29 فروری 2016 کو اس دن ہوئی جس روز ان کے والد کے قاتل کو پھانسی دی گئی۔
شہباز تاثیر کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے عدم برداشت والے معاشرے میں پروان چڑھیں۔ ’میں چاہتا ہوں کہ وہ قتل ہوئے بغیر سوال پوچھنے کے قابل ہوں۔‘

شہباز تاثیر کہتے ہیں کہ سکیورٹی خدشات کے باوجود وہ ملک چھوڑنا نہیں چاہتے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

شہباز تاثیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سوچ اور مذہب کے حوالے سے متنوع اور معتدل معاشرہ بننے میں کافی وقت لگے گا۔
تاہم ان کے مطابق پاکستان کے بہت بڑے مسائل کے منبع (عسکریت پسندی، شدت پسندی اور مذہبی شدت پسند گروہوں) کو بہت ہی کم قانونی طاقت حاصل ہے اور وہ اقلیت میں ہیں۔
’ہوسکتا ہے ہم پاکستانی اپنے مذہب کی وجہ سے قدامت پسند ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم شدت پسند ہیں۔‘
’ہم عسکریت پسندی اور شدت پسند عسکریت کی وجہ سے اتنا نقصان اٹھاچکے ہیں کہ دنیا کا شاید کوئی ملک اتنا نقصان اٹھایا ہو۔‘
قید میں اپنے عقیدے کو مضبوط کرنے کے باوجود شہباز تاثیر نے رہائی کے بعد پاکستان میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کسی مسجد میں قدم نہیں رکھا ہے۔
اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ وہ ملک چھوڑنا نہیں چاہتے اور اس ملک میں رہنے کا مصمم ارادہ ہے۔
 

شیئر: