Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب آج جدہ میں یوکرین بحران پر مذاکرات کی میزبانی کرے گا

جدہ مذاکرات قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر ہوں گے (فوٹو: العربیہ)
سعودی عرب سنیچر 5 اگست کو جدہ میں یوکرین بحران پر مذاکرات کی میزبانی کرے گا۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر اور متعدد ممالک کے نمائندے یوکرین بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے جدہ میں جمع ہو رہے ہیں۔ 
یہ اجلاس سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے انسانیت نواز اقدامات اور مسلسل کوششوں کا حصہ ہے۔  
سعودی ولی عہد یوکرین بحران کے آغاز سے روس اور یوکرین کے قائدین سے رابطے میں ہیں۔ 
شہزادہ محمد بن سلمان نے دوونوں ملکوں کے رہنماؤں سے رابطے کرکے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ’سعودی عرب پائیدار حل تک رسائل کے لیے امن مشن کے لیے تیار ہے۔‘
’سعودی عرب چاہتا ہے کہ یوکرین بحران کے اثرات کم کرنے اور اس سے پیدا ہونے والے انسانی مصائب کا بوجھ کم کرنے کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں اور اقدامات کا ساتھ دیا جائے۔‘
ایس پی اے کے مطابق سعودی حکومت چاہتی ہے کہ جدہ اجلاس یوکرین بحران کے حل کی تمام طریقوں تک رسائی میں معاون بنے۔ 
عالمی سطح پر بات چیت، یکجہتی اور خیالات کے تبادلے کے ذریعے مکالمے کے فروغ میں حصہ ڈالے۔
سیاسی اور سفارتی ذرائع استعمال کرکے یوکرین بحران کا حل نکالا جائے تاکہ عالمی امن و سلامتی مستحکم ہو اور دنیا یوکرین بحران کے اقتصادی و سلامتی و انسانی مسائل سے محفوظ ہوسکے۔ 
اس سے قبل الشرق الاوسط نے ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ سعودی عرب پانچ اور چھ اگست کو یوکرینی بحران پر مذاکرات کی میزبانی کرے گا۔
جدہ مذاکرات قومی سلامتی کے مشیروں کی سطح پر ہوں گے جو جون میں کوپن ہیگن میں ہونے والے سربراہی اجلاس کا تسلسل ہیں۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ ’وہ مذاکرات کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنے پر سعودی عرب کے شکر گزار ہیں‘۔
ٹوئٹر پر بیان میں انہو ں نے کہا’ سنیچر کو جدہ سعودی عرب میں امن فارمولے کے حوالے سے  قومی سلامتی کے مشیروں اور وزارت خارجہ کے نمائندوں کا اجلاس شروع ہوگا‘۔
’اجلاس میں مختلف براعظموں، گلوبل ساوتھ کے ممالک سمیت بہت سے ملکوں کی نمائندگی ہوگی‘۔
انہوں نے کہا کہ’ یہ بہت اہم ہے کیونکہ فوڈ سیکیورٹی جیسے معلاملات، افریقہ، ایشیا اور دنیا کے دیگر حصوں میں لاکھوں لوگوں کی قسمت کا براہ راست انحصار اس بات پر ہے کہ دنیا امن فارمولے پرعملدرآمد میں کتنی تیزی لائے گی‘۔

شیئر: