Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پڑوسی کو گاڑی کے بونٹ پر بیٹھنے سے روکنا تین بھائیوں کی جان لے گیا

یہ 17 اکتوبر 2021 کی رات تھی۔ لاہور کے علاقے شاہدرہ کی جہانگیر کالونی میں رات کے نو بج چکے تھے۔
ایڈووکیٹ طاہر محبوب اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر پر موجود تھے جب ان کے دروازے پر اچانک زور زور سے دستک ہوئی۔ ان کے بھائی نے دروازہ کھولا تو ایک خاتون نے تحکمانہ انداز میں اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ’سب کو جان سے مار دو۔‘
اس کے ساتھ ہی گولیاں چلیں جن کی زد میں آ کر طاہر محبوب کے تینوں بھائی ہلاک ہو گئے۔ 
طاہر محبوب کے مطابق ان کے تین بھائیوں کے قتل کی وجہ محض یہ تھی کہ ان کے پڑوسی کو گاڑی کے بونٹ پر بیٹھنے سے منع کیا گیا تھا۔  
ایڈووکیٹ طاہر محبوب نے اُردو نیوز کو اپنے بھائیوں کے قتل کی داستان کچھ یوں سُنائی کہ ’اس روز میرے آبائی علاقے آزاد کشمیر مظفر آباد سے میرے دو بہنوئی ہمارے ہاں آئے ہوئے تھے۔ ان کی گاڑی ہمارے گھر کے باہر گلی میں ہی کھڑی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ شام سات بجے کے قریب جب وہ گھر سے باہر نکلے تو ان کے پڑوسی غلام عباس گاڑی کے بونٹ پر بیٹھے تھے۔ ’میں نے اسے بونٹ پر بیٹھنے سے منع کیا تو وہ طیش میں آ گیا اور اپنی والدہ رشیداں بی بی کو ساتھ لے آیا۔ دونوں نے گالم گلوچ شروع کر دی۔‘
طاہر محبوب کے مطابق ’اسی دن رات کے 9 بجے دروازے پر دستک ہوئی تو میرے بھائی حافظ  طاہر محمود  نے دروازہ کھولا، باہر  کافی شور ہو ر ہا تھا۔ ہم سب گھر والے باہر آگئے۔
رشیداں بی بی اپنے شوہر، دو بیٹوں، بھائی اور داماد سمیت متعدد دیگر مسلح رشتہ داروں کے ساتھ دروازے کے باہر کھڑی انہیں دھمکا رہی تھیں۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے اپنے عزیزوں کو کہا کہ ان سب کو جان سے مار دو۔  اس کے بیٹے نے گولی چلائی۔ پہلی گولی میرے بھائی طاہر  محمود کے بائیں بازو پر لگی اور وہ زخمی حالت میں زمین پر گر پڑا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میرا دوسرا بھائی طاہر مسعود  زخمی بھائی کو بچانے کے لیے آگے بڑھا تو رشیداں بی بی کے ساتھیوں میں سے ایک اکرم جلالی نامی ملزم نے ان کو پیٹ میں گولی مار کر زخمی کر دیا۔ تیسرا بھائی محمد ذیشان یعقوب ان کے دوسرے بھائی کو بچانے کے لیے لپکا تو رشیداں بی بی کے شوہر اور داماد نے ان پر بھی فائرنگ کر دی۔‘
ایڈووکیٹ طاہر محبوب نے بتایا کہ ‘شدید فائرنگ کی وجہ سے علاقہ مکینوں نے گھروں میں چھپ کر اپنی جانیں بچائی۔ ہم اپنے تینوں بھائیوں کو زخمی حالت میں میو ہسپتال لے گئے لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔‘ 

ایڈووکیٹ طاہر محبوبکے مطابق ان کے بھائی نے دروازہ کھولا تو ایک خاتون نے تحکمانہ انداز میں اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ’سب کو جان سے مار دو۔‘

ایڈووکیٹ طاہر محبوب تھانہ شاہدرہ ٹاؤن میں دہشت گردی، قتل اور اقدام قتل کی دفعات کے تحت پانچ معلوم جبکہ چار نامعلوم ملزموں کے خلاف مقدمہ درج کروا چکے ہیں۔  
مقدمے کے اندراج کے دو روز بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے نامزد خاتون ملزمہ رشیدہ بی بی، ان کے شوہر اصغر اور بیٹے غلام عباس کو گرفتار کر لیا۔ 
پولیس کے بیان کے مطابق ’گرفتار خاتون نے گاڑی کے بونٹ پر بيٹھنے کے معمولی تنازع پر شرقپور فون کرکے اپنے بھائیوں کو بلا کر ان تین بھائیوں کا قتل کروایا۔‘
ایڈووکیٹ طاہر محبوب کا تعلق بنیادی طور پر مظفرآباد آزاد کشمیر سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب وہ پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔ ان کے بڑے بھائی بزنس مین جبکہ  دوسرے بھائی انجینیئر تھے۔ 
’سب سے چھوٹے بھائی جامعہ پنجاب سے وکالت کی تعلیم حاصل کر رہے تھے جن کے دو روز بعد تیسرے سال کے فائنل پیپرز تھے لیکن انہوں نے اس پر سیدھا فائر کر کے اسے بھی قتل کر دیا۔‘
ایڈوکیٹ طاہر محبوب کے بقول تمام ملزمان کو ضمانت مل چکی ہے جس کی وجہ سے انہیں بار بار دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ’میں چونکہ اب اپنے خاندان میں اکیلا مرد رہ گیا ہوں تو میرے والدین کو بھی میری ہی فکر رہتی ہے۔‘
ایڈووکیٹ طاہر محبوب کے وکیل ایڈوکیٹ برہان معظم نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’مدعی کا بیان ریکارڈ ہو چکا ہے۔ ہماری طرف سے گذشتہ روز گواہان جب عدالت میں بیان ریکارڈ کروانے کے لیے آئے تو ملزم انہیں بار بار دھمکیاں دے رہے تھے۔ ہم نے جج کو اس حوالے سے آگاہ کر دیا ہے۔‘
ایڈووکیٹ طاہر محبوب نے الزام عائد کیا کہ ’ملزم اب اس معاملے کو مسلکی فرقہ واریت کا رنگ دینا چاہتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا اور کئی سیاستدان بھی اس کیس میں ملزموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ہائی پروفائل کیس ہے۔ اس پر کام ہو رہا ہے لیکن اس پر پیشرفت کے متعلق معلومات اعلٰی حکام مکمل جائزے کے بعد ہی پیش کر سکتے ہیں۔

شیئر: