Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں قتل کی خونی واردات، جب بھائی نے بھائی کا گھر اجاڑ دیا

محمد سلیم نے جائے واردات پر پہنچنے کے بعد بھائی اور ان کے اہل خانہ کی لاشیں دیکھ کر فورا پولیس کو اطلاع دی: فوٹو فری پکس
لاہور کے علاقے ایگرکس سوسائٹی میں 27 فروری کو معمول کی صبح تھی۔ اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے زندگی دھیرے دھیرے شروع ہو رہی تھی۔ دوسرے تمام دفاتر کی طرح عدالتوں اور کچہری میں بھی ہفتہ وار چھٹی تھی۔
اس لیے امانت علی ایڈووکیٹ بھی اپنی اہلیہ اور دو ماہ کی شیر خوار بیٹی کے ساتھ آرام کر رہے تھے۔ تقریبا سوا سات بجے ان کے گھر کی گھنٹی بجی۔
33 سالہ امانت علی نے دروازہ کھولا تو سات افراد ایک دم گھر کے اندر گھس گئے۔ ان میں سے ایک شخص نے امانت پر پستول تانی اور ان کو ان کے بیڈروم میں لے گئے۔
امانت کی اہلیہ نے اپنے شوہر کو پستول کے سامنے ہاتھ اوپر کیے دیکھا تو وہ ہڑبڑا گئیں۔ جس پر اس گروہ میں شامل ایک اور شخص نے امانت کی اہلیہ پر بھی پستول تان لی اور ان کو ایک دوسرے کمرے میں لے گئے۔ امانت کے ساتھ چند لمحے گفتگو کرنے کے بعد ان کو بیڈ روم کے ساتھ منسلک واش روم میں لے جا کر ذبح کر دیا گیا۔ یہی سلوک ان کی اہلیہ کے ساتھ بھی دوسرے کمرے میں کیا گیا۔
اس کے بعد یہ گروہ واپس امانت کے بیڈ روم میں آیا اور وہاں لیٹی دو ماہ کی بچی کو بھی گلہ دبا کر قتل کر دیا، اور واردات مکمل کرنے کے بعد آٹھ بجے کے قریب گھر کے دروزے بند کر کے اطمینان سے فرار ہو گئے۔
اس گھر کی بالائی منزل پر امانت کی والدہ رہائش پذیر تھیں۔ ان کو ان کے کمرے میں ہی بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم قاتلوں کے فرار کے بعد وہ کسی طریقے سے اپنے دوسرے بیٹے محمد سلیم کو اطلاع کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
محمد سلیم نے جائے واردات پر پہنچنے کے بعد بھائی اور ان کے اہل خانہ کی لاشیں دیکھ کر فورا پولیس کو اطلاع دی۔ اس علاقے کے سپرٹینڈینٹ پولیس (ایس پی) حسن جاوید بھٹی کے مطابق شروع میں اس خونی واردات کی تفتیش پیچیدہ معلوم ہو رہی تھی کیونکہ اس میں ایسا سفاک دشمن ملوث تھا جس نے دو ماہ کی معصوم بچی کو بھی نہ بخشا تھا۔
اہم شواہد کے مشاہدے اور ابتدائی معلومات کے حصول کے بعد یہ لگ رہا تھا کہ اس جرم میں امانت علی کا کوئی قریبی رشتے دار ملوث ہے۔ حسن جاوید بھٹی کے مطابق ’یہ ایک دل دہلا دینے والی واردات تھی۔ میں وائرلیس پیغام کے 15 منٹ بعد ہی وہاں پہنچ گیا اور ہم نے علاقے کی ناکہ بندی کر دی۔ بنیادی طورپر امانت پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اور ان کے بھائی وسیم موٹر وے پولیس میں ملازم ہیں۔ وسیم نے شک ظاہر کیا کہ اس واردات کے پیچھے ان کا تیسرا بھائی امین ہوسکتا ہے۔‘
علاقے کے لوگوں کے مطابق اس واردات سے قبل رائیونڈ روڈ پر ایگرکس سوسائٹی کے گیٹ سے ایک گاڑی اور ایک موٹر سائیکل اکٹھے داخل ہوئے تھے جن پر کم ازکم سات افراد سوار تھے۔
سوسائٹی کے چوکیداروں نے ان سے ان کی شناخت پوچھی اور مطمئن ہونے کے بعد ان کو داخلے کی اجازت دے دی۔ ایس پی حسن جاوید بھٹی نے اردو نیوز کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب اس کار اور موٹر سائیکل کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے شناخت کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کی نمبر پلیٹس جعلی نکلیں۔‘
تاہم پولیس نے مقتول کی والدہ کے شک اور ایف آئی آر میں نامزدگی پر امانت علی کے بھائی امین اور ان کے دوبیٹوں شہزاد اور رضا کو گرفتار کر لیا۔

پولیس کو اہم شواہد کے مشاہدے اور ابتدائی معلومات کے حصول کے بعد یہ لگ رہا تھا کہ اس جرم میں امانت علی کا کوئی قریبی رشتے دار ملوث ہے۔ فائل فوٹو

پولیس نے ان کے ایک اور قریبی رشتہ دار بابر کو بھی گرفتار کیا لیکن تاحال دیگر تین ملزمان غائب تھے جو اس روز سوسائٹی کے سی سی ٹی وی کیمروں میں نظر آئے تھے۔ امین اس سے قبل اپنے والد کے قتل کے جرم میں جیل میں رہ چکا تھا، جس کی وجہ سے پولیس کو یقین تھا کہ یہ واردات اسی نے کی ہے۔ لیکن ان کے لیے ایک نیا چیلنج تب سامنے آیا جب امین نے انکشاف کیا کہ اس نے اس واردات کے لیے پیشہ ور قاتلوں کو استعمال کیا ہے۔
لاہور پولیس انویسٹی گیشن ونگ کے سربراہ ایس ایس پی عمران کشور کے مطابق ’امین جب جیل میں تھا تو اس کی ملاقات وہاں تین پیشہ ور قاتلوں سے ہوئی۔
جن کی شناخت عاشق علی، محمد گلزار اور ساجد الرحمان کے ناموں سے ہوئی۔ یہ تینوں قتل کے کئی مقدموں میں جیل جا چکے ہیں، اور قصائی کے نام سے مشہور تھے۔
امین نے ان قصائیوں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا تھا۔‘ ’امین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اپنے سگے بھائی کو اس نے کرائے کے قاتلوں سے قتل کروایا۔ اس کے بقول اس نے اپنے باپ کو اس لیے قتل کیا تھا کیونکہ انہوں نے وراثتی جائیداد میں اس کو اس کی مرضی کے مطابق حصہ نہیں دیا تھا۔
اس کے خیال میں اس کے بھائی امانت علی نے اپنی وراثتی جائیداد اپنے اور دوسرے بہن بھائیوں کے نام کروا لی تھی جس کی وجہ سے اس نے اپنے بھائی کو بھی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔‘ عاشق اور اس کی ٹٰیم کا منصوبہ یہ تھا کہ گولی چلائے بغیر اپنا ہدف حاصل کرنا ہے۔ پولیس کے مطابق انہوں نے برچھیوں سے دونوں میاں بیوی کا گلا کاٹ دیا جبکہ ان کی بیٹی کو گلا دبا کر مارا۔
عمران کشور کے مطابق ان تینوں پیشہ ور قاتلوں کو ڈھونڈنے اور پکڑنے میں پولیس کو ابتدائی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم جیوفینسنگ کے بعد پولیس کو کامیابی ملی اور یہ پورا گروہ گرفت میں آ گیا۔

شیئر: