Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بحران در بحران: کیا پاکستان کو درپیش مسائل کا کوئی حل بھی ہے؟ 

تجزیہ کاروں کے مطابق ’تمام مسائل کا حل نئی سیاسی جماعتوں کا قیام، زرعی اصلاحات اور سیاست میں فوج کی عدم مداخلت ہے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو 
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا 
لگتا ہے پاکستان کی حالت منیر نیازی کے اس شعر کی مانند ہو گئی ہے جسے ہر روز ایک نئے بحران، ایک نئی مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ 
سیاسی بے یقینی، معاشی ابتری، انتہا پسندی اور سماجی تقسیم نے جہاں معاشرے کی بنیادیں ہلا دی ہیں وہیں آئینی اداروں کی حالت زار اور ان پر اٹھتے سوالوں نے کامل بے یقینی کی فضا قائم کر دی ہے۔ 
سیاسی بھنور میں پھنسے ملک کی ناؤ کو نیا جھٹکا اس وقت لگا جب اتوار کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ کی اور سب کو حیران و پریشان کر دیا۔ 
انہوں نے لکھا کہ ’میں اللّٰہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔‘
صدر مملکت کے مطابق ’میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔‘
’میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ واپس جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں، تاہم مجھے آج پتا چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔‘ 
ڈاکٹر عارف علوی نے لکھا کہ ’اللہ سب جانتا ہے، وہ ان شا اللہ معاف کر دے گا۔ لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔‘ 
صدر نے یہ ٹویٹ کی اور اس سے اگلے روز اپنے سیکریٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں۔ 
پیر کی سہ پہر ایوان صدر کی جانب سے کی گئی ٹویٹ میں کہا گیا کہ ’گذشتہ روز کے واضح بیان کے پیشِ نظر ایوانِ صدر نے صدر مملکت کے سیکریٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس کر دیں۔‘ 
تاہم اس سارے تنازع نے بہت سارے سوالات اٹھا دیے کہ کیا آیا اس ملک میں کوئی آئین یا قانون موجود ہے یا نہیں؟ اگر صدر مملکت اس قدر ’مجبور اور لاعلم‘ ہیں تو ریاست کے تمام معاملات کون چلا رہا ہے اور کیا ان تمام مسائل کا کوئی حل بھی ہے یا ریاست اسی ڈگر پر چلے گی؟  

ضیغم خان کے خیال میں ’اس نظام کے سٹیک ہولڈرز مل کر نہ بیٹھے تو ایک کے بعد ایک بحران آتا رہے گا‘ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

اس حوالے سے سینیئر صحافی اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے وابستہ حسین نقی نے ملک کی سیاسی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے جہاں مسائل پر روشنی ڈالی وہیں ان کے حل بھی تجویز کیے۔ 
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کمزور جمہوریت ہو تو مزید جمہوریت کی ضرورت ہوتی ہے، یاد رکھیے کہ یہ ملک ووٹ سے وجود میں آیا۔ ہمیں زیادہ جمہوریت کی ضرورت ہے لیکن یہاں قابض افراد نے اسے پنپنے نہیں دیا۔‘
’قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر شائع ہونے سے روک دی گئی اور اگلے دن چند ہی اخباروں میں چھپ سکی۔ بیوروکریسی نے شروع سے ہی اس ملک پر قبضہ کر لیا لیکن پھر جن کے پاس بندق تھی وہ آگئے۔‘ 
حسین نقی نے ماضی کے دریچوں سے جھانکتے ہوئے کہا کہ ’مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کرنے کے لیے پیرٹی کے اصول کے تحت ون یونٹ بنا دیا گیا۔ 57 میں الیکشن کا وعدہ کیا گیا جو پورا نہ ہوا۔‘ 
’ہمارے ہاں اقتدار ابھی تک عوام کو ملا ہی نہیں۔ اگر مشرقی پاکستان نہ جاتا تو آج (یہاں) جمہوریت ہوتی۔ دیکھیں آج بھی ہمارے ہاں عوام الیکشن ہی مانگتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اپنے منتخب نمائندے کا گریبان نہ سہی بازو پکڑ کر سوال تو کر سکتے ہیں۔‘ 

 ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ ’میڈیا، سول سوسائٹی یا آزاد خیال شخصیات کے دباؤ سے ہی مسائل کے حل کی طرف جایا جا سکتا ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ان کے خیال میں ’پاکستان کی معیشت کمزور اور فوج بہت بڑی ہے جس کا بوجھ معیشت نہیں اٹھا پاتی۔ اس کی وجہ سے عوام کو تعلیم اور روزگار کے مواقع میسر نہیں ہوتے۔‘ 
حسین نقی سمجھتے ہیں کہ ’ان تمام مسائل کا حل ملک میں نئی سیاسی جماعتوں کا قیام، زرعی اصلاحات اور سیاست میں فوج کی عدم مداخلت ہے۔‘
’فوج سیاست میں مداخلت نہ کرے جیسے قائد اعظم نے کہا تھا کہ فوج حکومت کے ماتحت ہوتی ہے۔ پاکستان کے دشمنوں کی کمی نہیں ہے اور یہاں انارکی کی صورت میں ادارے کو بھی نقصان پہنچے گا۔‘ 
صحافی اور تجزیہ کار عارفہ نور کے خیال میں پاکستان کا سیاسی نظام پختہ نہیں ہے۔ آئین موجود ہے لیکن اس کے ساتھ پختہ سسٹم نہیں ہے۔ آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ہی سب کو ’رولز آف گیم‘ طے کرنا ہوں گے۔ 
ملک کو درپیش مسائل کے حوالے سے سابق ڈائریکٹر پاکستان سٹڈی سینٹر جامعہ کراچی اور موجودہ ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کراچی ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا کہ ’تمام مسائل کا حل موجود ہے لیکن بات نیت کی ہے۔‘ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اداروں میں جو عدم توازن ہے اس سے وہی ادارہ خوش ہے جسے اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ باقی تقسیم کے اس ماحول میں سیاست دان مل بیٹھنے کو تیار نہیں اور جو آئین ہے اس کی بابت سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی اپنی اپنی تشریح ہے۔‘ 

حسین نقی کہتے ہیں کہ ’ہمیں زیادہ جمہوریت کی ضرورت ہے لیکن یہاں قابض افراد نے اسے پنپنے نہیں دیا‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

’اس لیے ان اداروں یا افراد سے کیسے توقع کریں کیونکہ نہ پارلیمنٹ مسائل کے حل کے لیے ایک قدم بڑھی اور نہ ہی فوج اور بیوروکریسی ایک قدم پیچھے گئے۔‘ 
اس سوال پر کہ ایسے بے یقینی کے موسم میں پھر مسائل کیسے حل ہوں گے؟ ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا تھا کہ ’ان سب پر کوئی دباؤ آئے گا تب ہی یہ حل کی طرف جائیں گے۔‘
’ماضی میں ہم نے دیکھا کہ فیٹف کا دباؤ ہو یا آئی ایم ایف کا معاملہ، یہ سب اپنی روایتی پوزیشن سے پیچھے ہٹے اور حل کی طرف گئے، لیکن یہ بیرونی دباؤ کوئی آئیڈیل صورت حال نہیں ہے۔‘ 
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’دوسرا طریقہ ہے کہ اندرون ملک سے دباؤ آئے جیسے عوامی احتجاج یا مظاہرے ہوں جس سے سب اپنی اپنی روایتی پوزیشن سے پیچھے ہٹ جائیں، جیسے ایوب خان کے دور میں ہوا تھا، لیکن یہ منفی فورس ہے۔‘
اس سوال پر کہ پھر ایسے میں کیا کِیا جانا چاہیے؟ ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا کہ ’میڈیا، سول سوسائٹی یا آزاد خیال شخصیات کے دباؤ سے ہی مسائل کے حل کی طرف جایا جا سکتا ہے۔حالانکہ سول سوسائٹی کی کچھ حدود ہے اور گذشتہ پانچ برسوں میں اسے دبایا بھی گیا ہے۔‘

عارفہ نور کا کہنا ہے کہ آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ہی سب کو ’رولز آف گیم‘ طے کرنا ہوں گے (فائل فوٹو: آئی سٹاک)

’تاہم باشعور حلقوں، انجمنوں، ٹریڈ یونینوں اور وکلا تنظیموں کے دباؤ سے سیاسی جماعتوں میں بہتری آسکتی ہے کیونکہ ان میں بھی بہتر افراد موجود ہیں جو آواز بلند کر سکتے ہیں اور اپنی جماعتوں کے اسٹیبلشمنٹ سے گٹھ جوڑ کو بھی روک سکتے ہیں۔‘  
تجزیہ کار ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ ’ملک کے دو بنیادی مسئلے ہیں۔ ایک حکمران اشرافیہ، جس میں ایک طرف سیاست دان اور دوسری طرف فوج، بیوروکریسی اور سرمایہ کار ہیں۔‘ 
’76 برسوں میں یہ رولز آف گیم طے کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ کس کے پاس کتنی طاقت ہو گی۔ اگر سیاست دان اپنے تئیں یہ کوشش کریں تو پہلے تو فوج نہیں مانتی اور پھر سیاست دان بھی آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں۔ پہلے عمران خان جو کر رہے تھے وہی اب پی ڈی ایم کر رہی ہے۔‘ 
انہوں نے کہا کہ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ’ہماری ایلیٹ ریاست کی توجہ کا مرکز عوام نہیں ہیں۔ ہم ایٹمی ریاست ہیں لیکن سوشل انڈیکیٹرز جیسے تعلیم، صحت وغیرہ، ان میں بہت پیچھے ہیں۔‘
’اس سب سے ایک ایسی معیشت وجود میں آئی ہے جو صرف چھوٹے سے گروہ کو ہی فائدہ پہنچاتی ہے، ایسے ملک نہیں چلتے ہم بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہیں۔‘ 
ضیغم خان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس نظام کے سٹیک ہولڈرز کو مل کر بیٹھنا ہو گا ورنہ ایک کے بعد ایک بحران اسی طرح آتا رہے گا۔‘

شیئر: