Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے تیز کان اور انڈیا پاکستان کے کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کو گُر سکھانا

ظہیر عباس ،اظہر الدین کے پسندیدہ کرکٹر تھے اور وہ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔۔ (فائل فوٹو: قمر احمد ٹوئٹر)
پاکستان اور انڈیا کے میچوں میں میدان میں بڑا تناؤ ہوتا ہے۔ کھلاڑی ایک دوسرے کو زِیر کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں گرمی بھی آ جاتی ہے۔ ایک دوسرے کو آنکھیں بھی دکھاتے ہیں۔ صد شکر، یہ مخاصمت، مستقل عناد اور کینے کی صورت اختیار نہیں کرتی، اس لیے میدان سے باہر، دونوں ملکوں کے کھلاڑیوں کی دوستی اور خوشگوار تعلقات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔
آپ نے ٹی وی انٹرویوز میں دیکھا ہو گا، پاکستان انڈیا کے کرکٹر، حریف کھلاڑیوں کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ مزے مزے کے قصے سناتے ہیں۔ یادیں تازہ کرتے ہیں۔ ان کے آپسی تعلقات کا ایک خوب صورت پہلو کڑے وقت میں پرائے کھلاڑیوں کی رہنمائی ہے۔
اس سلسلے کی بہت سی کہانیوں میں چند ایک ہم معتبر حوالوں سے بیان کرتے ہیں۔ سب سے پہلے سابق انڈین ٹیسٹ کرکٹر اور معروف کرکٹ کمنٹیٹر سنجے منجریکر کی خود نوشت Imperfect سے رجوع کرتے ہیں جس میں پاکستان کرکٹ پر پورا باب ہے۔
اس کتاب میں انہوں نے عمران خان کا ذکر بہت اچھے لفظوں میں کیا ہے۔ اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے ایک دلچسپ واقعے کے بارے میں آپ کو کچھ بتا دیں جس کا تعلق عمران خان کے انہماک اور تیز کانوں سے ہے۔
منجریکر نے کتاب میں لکھا ہے کہ سنہ 1989 میں فیصل آباد ٹیسٹ میں لیگ سائیڈ پر جاتی گیند سچن تندولکر کے بلے کو بالکل ہلکا سا چھو کر وکٹ کیپر کے پاس گئی۔ پاکستان ٹیم میں عمران خان کے علاوہ کسی نے اپیل نہیں کی۔ امپائر نے نفی میں سر کو جنبش دی لیکن پاکستانی کپتان کو یقین تھا کہ تندولکر آؤٹ ہے۔ انہوں نے کھلاڑیوں سے کہا ’آواز تو ضرور آئی ہے یار‘، یہ بات دہراتے ہوئے وہ فیلڈنگ پوزیشن پر واپس چلے گئے۔ تندولکر جانتے تھے کہ گیند ان کے بلے سے لگی ہے۔ اوور کے اختتام پر انہوں نے منجریکر سے عمران خان کے بارے میں کہا ’یہ کیا آدمی ہے! کس قدر تیز کان ہیں۔
منجریکر نے لکھا کہ وہ آواز جو وکٹ کیپر اور امپائر کے کان میں نہ پڑی، اسے مڈ آن پر عمران خان نے سن لیا۔

سنجے منجریکر نے اپنی خود نوشت میں عمران خان کا ذکر بہت اچھے لفظوں میں کیا ہے۔ (فوٹو: سنجے منجریکر ٹوئٹر)

اب آتے ہیں اصل نکتے کی طرف پاکستان کے ساتھ چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں سنجے منجریکر کی کارکردگی بڑی متاثر کن رہی۔ لاہور میں انہوں نے ڈبل سینچری بنائی۔ اس سے پہلے کراچی ٹیسٹ میں وہ سینچری (ناٹ آؤٹ) بنا چکے تھے۔ عمران خان نے کئی دفعہ سرعام ان کی بیٹنگ کو سراہا۔
پاکستان کے بعد انڈین ٹیم نے نیوزی لینڈ کا دورہ کیا جہاں منجریکر بڑا سکور کرنے میں ناکام رہے۔ اس سیریز کے بعد شارجہ میں ان کا عمران خان سے آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے چھوٹتے ہی کہا کہ ’تم رچرڈ ہیڈلی کو بیک فٹ پر کیوں کھیلتے رہے؟‘، عظیم پاکستانی بولر نے انہیں بتایا کہ وسیم اکرم اور وقار یونس کی بولنگ کے خلاف آگے آ کر کھیلنے کی وجہ سے وہ کامیاب رہے تھے۔ 
منجریکر کی نظر میں عمران خان کی نصیحت کی بڑی اہمیت تھی لیکن انہیں حیرانی اس بات پر تھی کہ ان کا ہیرو ان کی بیٹنگ اس حد تک پسند کرتا ہے کہ نہ صرف نیوزی لینڈ میں ان کی کارکردگی پر نظر رکھے ہوئے تھا بلکہ ان کی ناکامی پر اسے مایوسی بھی ہوئی۔
سنہ 1989 کے دورہ پاکستان میں ہی انڈین بلے باز محمد اظہرالدین کو  بیٹنگ میں مسائل کا سامنا تھا۔ بلے پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ انہوں نے بھاری بلا آزما کر دیکھ لیا۔ موٹی گرپ کا تجربہ کر لیا۔ لیکن بات بنی نہیں۔ اس موقعے پر ظہیر عباس ان کی رہنمائی کے لیے آگے آئے۔ اظہرالدین نے انہیں بتایا کہ شاٹ کھیلتے ہوئے بلا ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے۔ ظہیر عباس نے انہیں سکھایا کہ کس انداز میں بلا پکڑنا چاہیے۔ انہیں آزمائشی طور پر گیندیں بھی کروائی گئیں۔ اظہر کو نئے طریقے سے بلے کو گرپ کرنے میں دشواری ہو رہی تھی اور ان کے دائیں ہاتھ کو تکلیف بھی پہنچی پر انہوں نے ایشین بریڈمین کے مشورے پرعمل کا فیصلہ کیا جس کے ثمرات جلد انہیں مل گئے۔
فیصل آباد ٹیسٹ میں انہوں نے پہلی دفعہ غیرملکی سرزمین پر سینچری بنائی۔ اس کے بعد سیریز میں دو نصف سینچریاں سکور کیں۔

بشن سنگھ بیدی (بائیں) نے پاکستانی کھلاڑیوں کی رہنمائی کی بھاری قیمت ادا کی۔ ان کی حب الوطنی مشکوک ٹھہری۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

معروف انڈین کرکٹ کمنٹیٹر ہارشا بھوگلے کے قلم سے  اظہرالدین کی سوانح عمری میں ظہیر عباس کے تعاون کے تذکرے کا ہم نے اپنے  لفظوں میں  خلاصہ بیان کر دیا۔ ہارشا نے مزید لکھا کہ ظہیر عباس ،اظہر الدین کے پسندیدہ کرکٹر تھے اور وہ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔۔ ادھر ظہیر عباس کے دل میں بھی اس نوجوان کھلاڑی کے لیے نرم گوشہ تھا جو انہی کی طرح کلائیوں کے خوبصورت استعمال سے بیٹنگ کرتا، اس سٹائل میں جو کبھی ان کی وجہِ شہرت تھا۔ ہارشا کا کہنا ہے کہ ظہیر کو اظہر میں اپنی جھلک دکھتی تھی اس لیے انہیں افسوس ہوا کہ آخر اس باصلاحیت کھلاڑی سے رنز کیوں نہیں بن رہے۔
تاریخ دان اور کرکٹ رائٹر مُکل کیسوان کی کتاب ’مین ان وائٹ‘ میں محمد اظہرالدین کا انٹرویو شامل ہے۔ اس میں اظہرالدین نے اپنے کیریئر کے مشکل وقت میں بیٹنگ میں بہتری لانے میں ظہیر عباس کے کردارکا حوالہ دیا ہے جن کی رہنمائی کے باعث وہ ایک محتاط بلے باز سے جارح مزاج بلے باز کے روپ میں سامنے آئے۔
اظہرالدین نے ظہیر عباس کا احسان ہمیشہ یاد رکھا۔ برسوں بعد اس  کا بدلہ بڑے احسن انداز میں چکانے کی کوشش کی۔ سنہ 2016 میں یونس خان سے انگلینڈ میں رنز نہیں ہو رہے تھے۔ کہا جا رہا تھا کہ وہ ’ختم‘ ہو گئے ہیں۔ انہیں ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے۔ اظہر الدین لیکن اس کے برعکس سوچ رکھتے تھے۔
انہوں نے اوول میں آخری ٹیسٹ سے پہلے یونس خان کو فون کیا، ان کی تکنیکی خامیوں کی طرف توجہ دلائی، حوصلہ بڑھایا۔ بتایا کہ سوئنگ بولنگ کو کس طریقے سے کھیلنا چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یونس خان نے اوول میں ڈبل سینچری بنا ڈالی۔ مین آف دی میچ کا ایوارڈ ملا تو برملا عمدہ کارکردگی میں اظہرالدین کا کردار تسلیم کیا۔

اوول ٹیسٹ میں ڈبل سینچری بنانے پر یونس خان کو مین آف دی میچ کا ایوارڈ ملا تو برملا عمدہ کارکردگی میں اظہرالدین کا کردار تسلیم کیا۔ (فوٹو: پی سی بی)

اب تک ہم نے بلے بازوں کو کرکٹ ٹپس پر  بات کی ہے۔ اب کچھ ذکر بولروں کی کشادہ ظرفی کا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے سابق انڈین کپتان اور مایہ ناز سپنر بشن سنگھ بیدی کا نام ذہن میں آتا ہے۔ پاکستانی ہم عصروں کے ساتھ ان کے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ گزشتہ برس اکتوبر میں وہ کرتار پور آئے تو انتخاب عالم ان سے ملنے گئے۔ دونوں یاروں کے لیے یہ نہایت پُرمسرت اور جذباتی لمحہ تھا۔
بیدی نے پاکستانی کھلاڑیوں کی رہنمائی کی بھاری قیمت ادا کی۔ ان کی حب الوطنی مشکوک ٹھہری۔ طرح طرح کی باتیں کی گئیں، جس کا انہوں نے مسکت جواب دیا۔
عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے 1987 میں بنگلور ٹیسٹ جیت کر  پہلی دفعہ انڈیا میں ٹیسٹ سیریز اپنے نام کی۔ اس تاریخی فتح میں پاکستانی سپنروں اقبال قاسم اور توصیف احمد نے مرکزی کردار ادا کیا۔ دونوں نے میچ میں نو نو کھلاڑی آؤٹ کیے۔ اس زمانے میں ٹیسٹ میچ کا چوتھا روز آرام کے لیے مختص ہوتا تھا۔ اس دن ایک تقریب میں اقبال قاسم اور توصیف کی بیدی سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں لمبی چوڑی بات نہیں کی۔ کہا کہ ’وکٹ پر گیند لمبا ٹرن لے رہا ہے اور یہ سپنر کے لیے بہت سازگار ہے، اس لیے صرف لائن لینتھ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ایک لائن پر گیند کرو، باقی کام وکٹ خود کرے گی، گیند زیادہ ٹرن کرنے کی کوشش کے بجائے نارمل سپن کرو۔
اقبال قاسم اور توصیف احمد کے اس بیان نے کہ بیدی کے مشوروں سے انہیں فائدہ ہوا، جلتی پر تیل کا کام کیا۔ بیدی نے تنقید کا جواب یہ کہہ کر دیا ’میں نے پاکستانی بولروں سے 10 منٹ بات کی اور وہ سمجھ گئے یہاں والوں کو میں برسوں سے سمجھا رہا ہوں مگر وہ سمجھ ہی نہیں رہے۔

کئی انڈین بولروں نے وسیم اکرم کے وسیع تجربے سے استفادہ کیا۔ (فائل فوٹو: کرکٹ پاکستان)

اب آخر میں وسیم اکرم کے انڈین بولروں کو مشوروں کی بابت کچھ بات۔ وسیم اکرم نے رواں برس آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل سے پہلے انڈین بولروں کو مشورے دیے۔ چند برس قبل محمد شامی کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ انہوں نے وسیم اکرم سے فاسٹ بولنگ کے کئی گُر سیکھے اور ان کے مشوروں سے بولنگ میں نکھار آیا۔ کئی دوسرے انڈین بولروں نے بھی وسیم اکرم کے وسیع تجربے سے استفادہ کیا۔
ان سب واقعات سے یہ جتلانا مقصود ہے کہ دونوں ملکوں کے کھلاڑیوں کے درمیان خوشگوار تعلقات سے بڑھ کر ایک دوسرے سے کرکٹ کی باریکیاں جاننے، مشکل میں کام آنے اور تعاون کی توانا روایت رہی ہے اور امید ہے یہ آئندہ بھی اسی  طرح چلتی رہے گی۔

شیئر: