Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیرل ہیئر جسے عمران خان نے ’چھوٹا ہٹلر‘ قرار دیا تھا

اوول ٹیسٹ تنازع کے بعد ڈیرل ہیئر نے امپائرنگ چھوڑنے کے عوض آئی سی سی سے پانچ لاکھ امریکی ڈالر مانگے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
قابل اجمیری کا مشہور شعر ہے:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آج سے 17 برس پہلے پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان اوول ٹیسٹ میں جس تنازع نے جنم لیا وہ اچانک نہیں ہوا بلکہ آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہیئر کے گزشتہ برسوں کے متعصبانہ طرزِ عمل میں اس کی ٹھوس بنیاد موجود تھی۔
ہیئر نے اوول میں پہلے پاکستان ٹیم کو بال ٹیمپرنگ کے ناکردہ جرم پر سزا دی۔ پاکستان کے احتجاج پر امپائروں نے انگلینڈ کو میچ کا فاتح قرار دے ڈالا۔ ٹیسٹ کرکٹ کی 146 سالہ تاریخ میں اس نوع کے فیصلے کی نظیر نہیں ملتی۔
اس واقعے میں ڈیرل ہیئر کے کردار پر آگے چل کر بات ہو گی لیکن اس سے پہلے ان کی شخصیت کی تفہیم کے لیے مختصراً دو واقعات کا تذکرہ۔
اوول ٹیسٹ تنازع کے بعد انہوں نے امپائرنگ چھوڑنے کے عوض آئی سی سی سے پانچ لاکھ امریکی ڈالر مانگے۔ یہ خبر آؤٹ ہونے سے انہیں خاصی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ سنہ 2017 میں ایک شراب خانے میں جہاں وہ کام کرتے تھے پیسے چراتے پکڑے گئے۔ جرم کا اقرار کیا۔ کہا کہ جوئے کی وجہ سے پریشانیوں نے آن گھیرا تو وہ چوری چکاری پر مجبور ہوئے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہر یار خان اوول تنازع کے خوش اسلوبی سے حل کے لیے آخری وقت تک سرگرم رہے لیکن ان کی کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں۔ انہوں نے سارے قضیے کو شرح وبسط سے اپنی کتاب ‘Cricket Cauldron: the turbulent politics of sport in Pakistan’ میں بیان کر دیا ہے جس سے ہم نے استفادہ کیا ہے کیونکہ جب اوول میں تاریخ بن رہی تھی تو وہ اس کے اہم کردار اور چشم دید گواہ تھے۔ ان کے اخباری بیانات اور انٹرویوزبھی پیش نظر رہے۔
ڈیرل ہیئر کا ایشیائی ٹیموں کے خلاف تعصب کھلا راز تھا۔ سنہ 1995 میں اُن کا نام اس وقت زیادہ اُچھلا جب اس نے مشکوک بولنگ ایکشن کی بنا پر مرلی دھرن کی گیندوں کو نو بال قرار دے کر سری لنکن ٹیم کے غیظ کو دعوت دی۔
سری لنکا کے کپتان ارجنا رانا ٹنگا ہیئر کے فیصلے پر بہت برہم ہوئے اور ان کی ٹیم واک آؤٹ کر گئی۔ اس کے برعکس انضمام نے اوول میں وقت پر صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ سری لنکا کے معاملے میں آئی سی سی نے یہ کیا کہ آئندہ آٹھ برس ہئیر نے ان کے میچوں میں امپائرنگ نہیں کی۔
اوول سے پہلے بھی پاکستان ٹیم کو ہیئر سے بہت سی شکایات تھیں۔ ان کے فیصلوں پر تحفظات تھے۔ ان سے آئی سی سی کو آگاہ کیا جاتا رہا لیکن اس نے معاملے کی نزاکت کا احساس نہ کر کے پاکستان کے میچوں میں ہیئر کو بار بار امپائرنگ کا موقع دیا جس کا منطقی نتیجہ سامنے آ گیا۔

ڈیرل ہیئر کا نام اس وقت زیادہ اُچھلا جب اس نے مشکوک بولنگ ایکشن کی بنا پر مرلی دھرن کی گیندوں کو نو بال قرار دیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

شعیب اختر نے اپنی کتاب میں ‘Controversially Yours’ میں بتایا ہے کہ ڈیرل ہیئر کے دل میں پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے جو حقارت تھی اسے انہوں نے کبھی چھپایا نہیں اور جب وہ میدان میں ہوتے تو ہم اسے محسوس کرتے تھے۔ ہیئر نے شعیب اختر کے بولنگ ایکشن کو مشکوک قرار دے کر انہیں بھی ذہنی اذیت سے دوچار کیا۔
اوول ٹیسٹ تنازع میچ کے چوتھے روز ایک ایسے وقت پر شروع ہوا جب میچ پر پاکستان کی گرفت مضبوط تھی۔ 55 اوورز پرانے گیند کی شکل بگڑنے پر ہیئر نے ساتھی امپائر بلی ڈاکٹروو کے مشورے سے گیند تبدیل کیا تو بنا کسی ثبوت کے پاکستان کو بال ٹیمپرنگ کا مرتکب ٹھہرایا اور سزا کے طور پر انگلینڈ کو پانچ رنز عطا کر دیے۔  پاکستانی کپتان انضمام الحق کے تقاضے پر گیند دکھانے سے بھی گریز کیا۔
کپتان سے کہیں زیادہ کوچ باب وولمر کو صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ ہو رہا تھا جو ہیئر کے غیر منصفانہ فیصلوں پر پہلے ہی بہت نالاں تھے۔ خاص طور پر سنہ 2005 میں انگلینڈ کے دورہ پاکستان میں۔ انہوں نے میچ ریفری مائیک پراکٹر کے پاس جا کر گیند کا معائنہ کر کے یہ تسلی کر لی کہ گیند سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔
لاوا چائے کے وقفے کے دوران پھٹا جب انضمام کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ آخر امپائر نے کیا کارروائی ڈالی ہے۔ انہوں نے ہیئر کے فیصلے کو ٹیم کی توہین اور قومی وقار کے منافی قرار دیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین شہر یار خان اس وقت وہیں موجود تھے۔ انہیں انضمام کے مؤقف سے اتفاق تھا لیکن ان کے خیال میں پانچ منٹ کے لیے احتجاج کافی تھا۔ وولمر نے بھی ان کی تائید کی لیکن انضمام نے یہ بات نہیں مانی۔ ان کا نقطہ نظر تھا کہ جب تک فیصلہ واپس لے کر امپائر سرعام معافی نہیں مانگتے پاکستان ٹیم کھیلنے نہیں جائے گی۔ یہ بڑا سخت مؤقف تھا۔ شہر یار خان نے بہتیرا سمجھایا کہ ٹیم کو یہ انکار مہنگا پڑ سکتا ہے۔ آئی سی سی کڑی سزا دے سکتی ہے۔ پاکستان اپنے ہمدردوں سے محروم ہو سکتا ہے۔ وولمر اور مینجر ظہیر عباس نے بھی ان کی حمایت کی۔ شہریار خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ صرف شعیب اختر ان کی باتوں پر سر کو اثبات میں جنبش دے رہے تھے۔ایک مرحلے پر انضمام نے کہا کہ ٹیم نے کھیلنے جانا ہے تو چلی جائے لیکن وہ تو نہیں جائیں گے۔ شہریار خان نے یہ بات رد کر دی اور اپنی رائے کا اعادہ کیا کہ پانچ منٹ کا احتجاج بہت ہے جس پر وولمر نے کہا کہ ٹیم دو منٹ میدان میں بیٹھ کر بھی احتجاج ریکارڈ کروا سکتی ہے۔

میدان میں کھیلنے کے لیے نہ آنے پر انضمام الحق پر چار ون ڈے میچوں کی پابندی عائد کی گئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اللہ اللہ کر کے پاکستان ٹیم آخرکار میدان میں جانے کے لیے تیار ہوئی تو دیکھا کہ امپائر واپس چلے آ رہے ہیں۔ ڈیرل ہیئر ڈریسنگ روم میں پہنچ گئے۔ انضمام سے پوچھا کہ وہ کھیلنے آ رہے ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کے بجائے انہوں نے امپائر سے کہا کہ ’تم نے گیند کیوں تبدیل کی اور مجھے گیند کیوں نہ دکھائی؟ ہئیر نے کہا کہ وہ یہاں ان سوالوں کا جواب دینے نہیں آیا اور اگر تم کھیلنے نہیں آئے تو میں دوبارہ تمھارے خلاف تادیبی کارروائی کروں گا۔ اس مکالمے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ہئیر کی ترش گوئی نے سلجھتی ڈور پھر سے الجھا دی۔ پاکستان ٹیم نے ان کے اس تحکمانہ رویے کی وجہ سے میدان میں جانے سے انکار کر دیا جس کے ردعمل میں ڈیرل ہیئر نے بیلز گرا کر میزبان ٹیم کی جیت کا اعلان کر دیا۔
اس پھیلتے تنازع کے حل کے لیے شہر یار خان کے ساتھ اب ڈاکٹر نسیم اشرف بھی متحرک ہوئے۔ انہوں نے صدر جنرل پرویز مشرف کو فون پر صورت حال بتائی۔ ان کی انضمام الحق سے بات کروائی۔ نسیم اشرف کے مطابق صدر نے کپتان کے فیصلے کی تائید کی لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا کہ قوانین کی پاسداری اور مینجمنٹ کی ہدایت پر عمل کیا جائے۔ اعلٰی ترین حکومتی سطح سے مداخلت کے بعد بھی انضمام لچک دکھانے پر راضی نہ ہوئے۔ اس ضمن میں انہیں ٹیم کی حمایت بھی حاصل تھی جسے شہر یار خان نے پلیئر پاورز کا نام دیا۔ 
پاکستان منیجمنٹ کا کلامِ نرم و نازک بے اثر ثابت ہوا تو انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ڈیوڈ مورگن آگے آئےاور انضمام کو سمجھایا بجھایا۔ ان کے دلائل کارگر ثابت ہوئے۔ پاکستان ٹیم کھیلنے کی غرض سے میدان میں گئی لیکن اب امپائر اپنی انا کے اسیر ہو گئے اور کہا کہ کہ میچ کا فیصلہ وہ کر چکے اس لیے اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس دن جو ہوا اس کے تناظر میں برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ نے لکھا:  Cricket's Darkest Hour
انضمام کا بے لچک رویہ اپنی جگہ۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی بات ماننے سے انکار الگ۔ ان کی روش پر کئی سابق کھلاڑیوں کی تنقید بجا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ دو موقعوں پر انہوں میچ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن ہیئر کی ہٹ دھرمی نے بنا بنایا کھیل بگاڑ دیا۔

شعیب اختر نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ ڈیرل ہئیر کے دل میں پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے جو حقارت تھی اسے انہوں نے کبھی چھپایا نہیں۔ (فوٹو: ایمیزون)

پانچویں دن کھیل شروع ہونے کی راہ بھی ان کی وجہ سے ہموار نہ ہو سکی۔ پاکستان کی ان کے خلاف شکایات پر آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹیو میلکم سپیڈ نے ہمیشہ ان کی طرف داری کی لیکن جب انہوں نے فون پر ڈیرل ہیئر سے میچ شروع کرنے کے لیے کہا تو انہیں بھی انکار سننے کو ملا۔ انہی باتوں کی وجہ سے عمران خان نے ہیئر کو سفید کوٹ میں چھوٹا ہٹلر قرار دیا تھا۔
آئی سی سی نے اس معاملے کی رنجن مدو گالے سے جو تحقیقات کروائیں اس میں پاکستان ٹیم بال ٹیمپرنگ کے الزامات سے بری ہو کر سرخرو ہوئی۔
دوسری طرف میدان میں کھیلنے کے لیے نہ آنے پر انضمام الحق پر چار ون ڈے میچوں کی پابندی عائد کر دی گئی۔ انہوں نے یہ فیصلہ قبول کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آئی سی سی لیول تھری کے مطابق سب سے کم سزا ہے۔ ان کو اصل خوشی ٹیم پر بال ٹیمپرنگ کا الزام غلط ثابت ہونے کی تھی جس سے ان کے خیال میں پاکستان کی عزت میں اضافہ ہوا۔
سنہ 2008 میں آئی سی سی نے اوول ٹیسٹ میں انگلینڈ کی فتح کو ڈرا میں بدل دیا لیکن اس فیصلے پر ایم سی سی کے سخت اعتراض پر سنہ 2009 میں جیت پھر سے انگلینڈ کے کھاتے میں ڈال دی۔

شیئر: