Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران ریاض سے ملاقات، وقت نے 15 برس پیچھے دھکیل دیا

عمران ریاض کی بازیابی کے بعد صحافیوں نے ان سے گھر پر ملاقات کی۔ فوٹو: اردو نیوز
کمرے میں زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔ ایک درجن سے بھی کم لوگ تھے لیکن تقریباً تمام چہرے شناسا تھے۔ سر پر سفید ٹوپی پہنے ایک باریش شخص سب سے باری باری گلے مل رہا تھا۔ اور پھر ان کی نظر مجھ پر پڑی، میں دروازے سے آگے بڑھ کر بغل گیر ہوا۔
عمران ریاض سے کئی سالوں بعد ملاقات ہو رہی تھی۔ اور یہ معانقہ طوالت اختیار کر گیا۔
گلے لگے ہوئے عمران ریاض نے کہا ’رائے تو مجھے دو بار یاد آیا‘۔
عمران نے یہ جملے بے ربطی میں کہے کیونکہ ان کی زبان میں لکنت تھی اور فضا تھوڑی جذباتی ہو گئی۔ 
یہ ملاقات کئی مہینوں سے جبری طور پر لاپتہ صحافی عمران ریاض کی اچانک بازیابی کے بعد ان کے گھر کے ڈرائنگ روم میں ہو رہی تھی۔ بزرگ صحافی مجیب الرحمٰن شامی کے علاوہ اجمل جامی، محمد الیاس اور اکبر باجوہ کے ساتھ میں بھی عمران ریاض کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کے گھر پر موجود تھا۔
اجمل جامی، عمران ریاض اور میں نے 2007 میں ایک ہی دن ایک ہی وقت ایک ہی ادارے سے ٹی وی صحافت کا آغاز کیا تھا۔ لیکن جلد یا بدیر سب کے راستے جدا ہو گئے۔ 
ڈرائنگ روم کی فضا میں عجیب سی خاموشی تھی کہ عمران ریاض نے ہنستے ہوئے اور اپنے لفظوں کو زبردستی جوڑتے ہوئے کہا ’مشکل وقت گزر گیا ہے،‘ اور سب کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ 
میں نے عمران ریاض کے تین روپ دیکھے ہیں۔ ایک پندرہ برس پہلے والا جب انہوں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ اس وقت وہ صحافتی بھول بھلیوں سے نابلد تھے۔
دوسرا روپ ان کی شہرت کا تھا جب انہوں نے صحافت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی دنیا میں قدم رکھا۔ اسی دوران عمران ریاض سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ 
اور اب یہ ان کا تیسرا روپ! یہ بالکل ہی الگ عمران ریاض تھے۔ بس کبھی کبھی پہلے روپ کی پرچھائی ان کے چہرے سے گزر جاتی تھی۔ لیکن اب تیسرے روپ کو وہی سمجھ سکتا جو ان کو قریب سے دیکھ لے۔

اینکر عمران ریاض تقریباً سوا چار ماہ لاپتہ رہنے کے بعد بازیاب ہوئے۔ فوٹو: بشکریہ میاں اشفاق

دو گھنٹے کی طویل ملاقات میں شعر و شاعری بھی ہوئی لطیفے بھی سنائے گئے اور ان کے ساتھ گزشتہ 140 دنوں میں جو بیتی اس کے قصے بھی سننے کو ملے۔
ویسے تو ان کی ظاہری صورت ہی اس بات کی گواہی کے لیے کافی تھی کہ سوا چار مہینے ان کی باقی زندگی پر بھاری تھے۔ مجیب الرحمٰن شامی نے ان کی بپتا سننے کے بعد ایک جملہ ادا کیا کہ ’یوں لگتا ہے کہ یہ ایک سو چالیس دن نہیں تھے بلکہ آپ کے لیے یہ ایک سو چالیس سال تھے۔‘
عمران ریاض کی آنکھوں میں بظاہر نہ تو درد تھا نہ خوف نہ خوشی، بس ایک طویل داستان تھی اور اس داستان کا حاصل یہ ہے کہ دنیا جس عمران ریاض کو جانتی ہے وہ اب یکسر ایک نئی شخصیت میں ڈھل چکے ہیں۔ 
وہ 140 دن تک لاپتہ رہے اور اس دوران ان پر کیا کیا بیتی اس کے کچھ حصے انہوں نے بیان کیے۔ چونکہ یہ گفتگو ان کی امانت ہے اور اگر وہ چاہیں گے تو وہ خود ہی دنیا کے سامنے رکھیں گے اس لیے وہ یہاں بیان نہیں کیے جا سکتے۔ 
ہزار اختلافات کے باوجود آج عمران ریاض سے سلسلہ وہیں سے جڑا جہاں سے 15 سال پہلے اس کی شروعات ہوئی تھی۔ کیونکہ انسانیت سے بڑھ کر نہ تو کوئی نظریہ ہے اور نہ ہی کوئی اختلاف۔

شیئر: