Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’واپسی کے سوا چارہ نہیں‘، چمن بارڈر سے سینکڑوں افغان باشندے روانہ

بعض افغان باشندوں کا کہنا ہے کہ ’ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ واپس جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں نگراں حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ایک ماہ کے اندر ملک چھوڑنے کی ڈیڈلائن دیے جانے کے بعد افغان مہاجرین کی وطن واپسی میں تیزی آ گئی ہے۔ 
حکام کا کہنا ہے کہ ’چمن بارڈر سے روزانہ 600 سے 700 افغان باشندے رضاکارانہ طور پر وطن واپس جا رہے ہیں۔‘
’حکومتی اعلان کے بعد سے گذشتہ چند روز کے دوران تین سے چار ہزار افراد واپس جا چکے ہیں۔‘
سرحدی حکام کے مطابق ’بدھ کو بھی تقریباً 600 سے زائد افغان باشندے ٹرکوں اور گاڑیوں میں سامان لاد کر افغانستان روانہ ہوئے۔‘
حکام کا مزید کہنا ہے کہ ’واپس جانے والوں میں غیر رجسٹرڈ کے ساتھ ساتھ پی او آر اور افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے باشندے بھی شامل ہیں۔‘
اس کے علاوہ صرف منگل کے روز 166 افغان باشندوں کو بے دخل کیا گیا جنہیں کوئٹہ، پشین اور بلوچستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ کراچی اور سندھ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
چمن کے اسسٹنٹ کمشنر حبیب بنگلزئی کے مطابق ’حکومت نے اس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن کی سرحد پر ایک خصوصی ڈیسک قائم کیا ہے۔‘
’اس ڈیسک میں فوج، ایف سی، ایف آئی اے اور ضلعی انتظامیہ سمیت متعلقہ محکموں کے اہلکار شامل ہیں۔ اس ڈیسک کے ذریعے واپس جانے والوں کی رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’افغان باشندوں کی اکثریت حکومتی ڈیڈلائن کے بعد رضاکارانہ طور پر واپس جا رہی ہے۔‘
’حکومت نے ان افراد کو باعزت طریقے سے واپس بجھوانے کے لیے چمن سرحد پر خصوصی کیمپ بھی قائم کردیا ہے جہاں پینے کا پانی، طبی اور دیگر سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔‘
واپس جانے والے افغان باشندے اپنے ساتھ اپنا تمام گھریلو سامان بھی ٹرکوں اور گاڑیوں میں لاد کر سرحد پر پہنچ رہے ہیں۔

حکام کے مطابق ’حکومتی اعلان کے بعد چند روز کے دوران تین سے چار ہزار افراد افغانستان واپس جا چکے ہیں‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

ان میں سے بعض تو گھر کے ٹی آر گارڈر اور لکڑی اور بانس وغیرہ بھی اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔
افغان علاقے اورزگان کے رہائشی عبداللہ اپنے خاندان کے 10 افراد کے ہمراہ ٹرک میں ضرورت کا سامان لاد کر اپنے وطن روانہ ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں 20 سال قبل امریکی حملے کے بعد پاکستان آیا تھا۔ کراچی میں ریڑھی چلاکر اپنے اہلِ خانہ کی کفالت کرتا تھا۔‘
’تاہم اب چند ہفتوں سے ایسے حالات پیدا ہوگئے ہیں کہ واپس جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ان کے آبائی علاقے میں اب پہلے کی طرح جنگ نہیں ہے لیکن سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہاں ہمارا کوئی گھر، روزگار اور کاروبار نہیں۔ اب سب کچھ نئے سرے سے شروع کرنا پڑے گا۔‘
واپس جانے سے قبل رجسٹریشن کے عمل میں سست روی اور رش کی وجہ سے افغان خاندانوں کو کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق ’رہ جانے والے افراد کو اگلی صبح بھیج دیا جاتا ہے، اس سلسلے میں کیمپ بھی قائم کیا گیا ہے جہاں یہ افغان باشندے رات گزار سکتے ہیں۔ اس کیمپ میں انہیں ضرورت کا سامان اور سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔‘

رجسٹریشن کے عمل میں سست روی کی وجہ سے افغان خاندانوں کو کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑ رہا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

دوسری جانب پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں نے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کا ریکارڈ مرتب کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
گھر گھر جا کر سروے کے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں میں ناکے لگا کر بھی شناختی دستاویزات دیکھی جا رہی ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں بعض رجسٹرڈ افغان باشندوں نے پولیس کی جانب سے انہیں ہراساں کرانے کی شکایات بھی کی ہیں۔
اس کے بعد محکمہ داخلہ بلوچستان نے پولیس اور انتظامیہ کو یو این ایچ سی آر سے رجسٹرڈ پی او آر کارڈ اور نادرا سے رجسٹرڈ افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے افغان باشندوں کو ہراساں نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
منگل کو کوئٹہ میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیرصدارت صوبائی ایپکس کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔
نگراں وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ ’ایپکس کمیٹی میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اقدامات تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

سکیورٹی اداروں نے بلوچستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کردیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’بلوچستان میں تقریباً اڑھائی لاکھ افغان باشندے غیرقانونی طور پر مقیم ہیں جنہیں ہر صورت ان کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔‘
وفاقی حکومت نے یکم نومبر سے پاکستان اور افغانستان کی چمن سرحد پر 70 برسوں میں پہلی بار مکمل پاسپورٹ اور ویزا نظام رائج کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
اسی طرح حکومت نے 10 اکتوبر سے افغان صوبہ قندھار کے رہائشیوں کو صرف کمپیوٹرائزڈ افغان شناختی کارڈ ’تذکرہ‘ پر چمن میں داخل ہونے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
چمن سرحد پر تعینات ایک اہلکار نے بتایا کہ ’اس فیصلے پر بھی عمل درآمد شروع کرتے ہوئے اب ایک صفحے پر مبنی کاغذی افغان شناختی کارڈ رکھنے والے افغان باشندوں کو داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔‘
 اس فیصلے پر منگل کو افغان حکام نے احتجاج کرتے ہوئے ایک گھنٹے تک سرحد بند کیے رکھی، تاہم اس کے باوجود پاکستانی حکام اپنے فیصلے پر قائم رہے۔
چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ای ویزا سسٹم رائج کرنے کے فیصلے کے بعد پاکستانی حکومت نے افغان حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ چمن میں ایک ذیلی قونصل خانہ قائم کرے۔

سرحدی حکام کے مطابق ’بدھ کو 600 سے زائد افغان باشندے ٹرکوں اور گاڑیوں میں سامان لاد کر افغانستان روانہ ہوئے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

محکمہ اطلاعات بلوچستان کے مطابق ’یہ تجویز منگل کو نگراں وزیراعلٰی بلوچستان علی مردان ڈومکی کے دورہ چمن کے موقع پر منعقدہ ایک اجلاس میں دی گئی۔‘
اجلاس میں چیف سیکریٹری شکیل قادر خان، آئی جی ایف سی میجر جنرل عامر اجمل اور بلوچستان پولیس کے سربراہ عبدالخالق شیخ نے شرکت کی۔
اجلاس میں وطن واپسی کے عمل کی نگرانی کے لیے پولیس، لیویز اور ضلعی انتظامیہ کے نمائندوں پر مشتمل ایک مانیٹرنگ کمیٹی بھی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
’وطن واپسی کے عمل کی نگرانی کے لیے پولیس، لیویز اور ضلعی انتظامیہ کے نمائندوں پر مشتمل ایک مانیٹرنگ کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔‘
اجلاس کو بتایا گیا کہ ’کم سے کم تین کیمپ قائم کیے جا رہے ہیں جہاں یکم نومبر کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد غیر قانونی طور پر مقیم مہاجرین کو پکڑ کر افغانستان بھیجے جانے سے قبل رکھا جائے گا۔‘
نگراں وزیراعلٰی بلوچستان کا کہنا تھا کہ ’چمن پاسپورٹ آفس میں اضافی عملے کا تقرر کیا جا چکا ہے اور دفتر روزانہ 24 گھنٹے کھلا رہے گا۔‘
ان کے مطابق ’اسی طرح کا ایک پاسپورٹ آفس جلد ہی قلعہ عبداللہ میں بھی کام شروع کر دے گا۔‘

شیئر: