Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیرون ملک جانے کے لیے سپریم کورٹ بار لیٹر ہیڈ کا ’غیرقانونی استعمال‘، تحقیقات شروع

2022 میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نئی باڈی نے لیٹر ہیڈ کے غیرقانونی استعمال کا نوٹس لیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے لیٹر پیڈز کے غیرقانونی استعمال کے ذریعے ویزا حاصل کر کے یورپ جانے والے درجنوں افراد کے معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
پیر کو ایف آئی اے ہیومین سمگلنگ ونگ کے حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے ایف آئی اے کو شکایات درج کرائی گئی ہیں۔
’ویزوں کے حصول کے بعض افراد کی جانب سے خود کو وکلا ظاہر کر کے سکینڈی نیویا کے ممالک کا ویزا حاصل کیا گیا ہے اور بعد ازاں یہ افراد غیر قانونی طور پر یورپ منتقل ہو گئے ہیں۔‘
حکام کے مطابق ’اس سارے عمل میں سپریم کورٹ بار ایسوس ایشن کے لیٹر پیڈزز کا غیر مجاز استعمال کیا گیا ہے جس کی جامع تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ شکایات متعلقہ محکمے کو مل چکی ہے جس کے بعد جلد ہی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے گی جو سپریم کورٹ بار کی سابق اور موجودہ باڈی کے حکام سمیت متعلقہ ملک کے سفارت خانے سے بھی رابطہ کرے گی۔
حکام کے مطابق شکایت میں کہا گیا ہے کہ آسٹریا کے سفارت خانے کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے لیٹر پیڈ پر ایک خط دیا گیا جس پر 39 افراد کو ویزا دینے کی درخواست کی گئی تھی کہ یہ سپریم کورٹ بار ایسوسی کے ارکان اور وکلا ہیں۔
لیکن سپریم کورٹ بار کے مطابق ایک تو کسی مجاز اتھارٹی نے وہ خط نہیں لکھا تھا اور نہ ہی اس فہرست میں شامل افراد وکلا برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
گزشتہ سال نومبر 2022 میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نئی باڈی نے چارج سنبھالنے کے بعد لیٹر ہیڈ کے غیرقانونی استعمال کا نوٹس لیا تھا۔

ایف آئی اے کے مطابق خود کو وکلا ثابت کرنے والے غیر قانونی طور پر یورپ منتقل ہو گئے ہیں (فوٹو: ایف آئی اے)

سیکریٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن مقتدر اختر شبیر نے بتایا کہ ’اس واقعے کے حوالے سے بار نے اندرونی انکوائری بھی کروائی۔ جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ایسوسی ایشن اراکین کو شینگن ویزا دینے کے لیے آسٹریا کے سفارت خانے سے رابطہ کیا اور ایس سی بی اے کے لیٹر ہیڈز پر خط و کتابت کی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ شبہ ہے کہ جن افراد کے نام فہرست میں شامل تھے ان میں سے زیادہ تر یورپ میں چلے گئے۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ بار ایسوسی رجسٹری برانچ لاہور کے عملے نے 39 افراد کی فہرست کی سختی سے تردید کی ہے اور موقف اختیار کیا کہ نہ تو اس کی جانب سے ایسی کوئی فہرست تیار کی گئی اور نہ ہی اس نے آفیشل سٹیشنری کسی کے حوالے کی۔
ایف آئی اے مطابق کہ پاکستان سے بیرون ملک جانے والے افراد ایجنٹس کے ذریعے اس طرح کی جعل سازیاں کرتے ہیں۔
بعض اوقات اداروں کے اندر سے افراد کو نیٹ ورک کا حصہ بنایا جاتا ہے اور ویزا لگ جانے کی صورت میں ان افراد کو بھی حصہ دیا جاتا ہے۔

شیئر: