Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈالر کی قلّت: ایف آئی اے کے کریک ڈاؤن سے صورت حال بہتر ہو گی؟

ایف آئی اے نے سب سے زیادہ امریکی ڈالر جبکہ دوسرے نمبر پر درہم تحویل میں لیے ہیں (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں ڈالر کی قلّت کے باعث ایک طرف ترسیلاتِ زر کا نظام متاثر ہے تو دوسری جانب بینک بھی مارکیٹ سے مہنگے داموں ڈالر خرید کر کاروبار کر رہے ہیں۔
ایسے میں حکومت نے ڈالر کے بھاؤ کو انٹر بینک میں تو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے البتہ اوپن مارکیٹ میں صورت حال مکمل قابو میں نہیں ہے۔
اس حوالے سے کئی طرح کے اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ ڈالر کی دستیابی معمول کے مطابق ہو سکے تاہم یہ اقدامات بھی بارآور ثابت ہوتے دِکھائی نہیں دے رہے۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے اپیل کی ہے کہ ’جن افراد کے پاس بڑی تعداد میں ڈالر موجود ہیں وہ انہیں مارکیٹ میں لے آئیں تو نہ صرف یہ بحران ختم ہو سکتا ہے بلکہ ملک کی معیشت میں بھی بہتری آسکتی ہے۔‘
احسن اقبال کی اپیل کب کارگر ثابت ہوتی ہے اس بارے میں فی الحال تو کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ وفاقی تحقیاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اپنے تئیں مارکیٹ میں ڈالر کی قلّت کو ختم کرنے کے لیے غیر قانونی طورپر غیرملکی کرنسی کا کاروبار کرنے والے افراد کے خلاف گھیرا تنگ کررکھا ہے۔
ایف آئی اے کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ دو مہینوں میں کریک ڈاؤن کے دوران 52 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جو ڈالر اور دیگر غیرملکی کرنسی کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث تھے۔
مجموعی طور پر 42 مقدمات درج کیے گیے ہیں جبکہ اس سارے عمل سے صرف پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں سے 30 کروڑ مالیت کے ڈالر اور دیگر کرنسی تحویل میں لی گئی ہے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور زون سرفراز ورک نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ڈالر کی قلّت اور مصنوعی بحران پیدا کرنے میں اُن افراد کو ہاتھ ہے جو کرنسی کا غیر قانونی کاروبار کرتے ہیں۔ ہم نے ایسے ایسے لوگوں کو حراست میں لے لیا جو بظاہر تو کوئی اور کام کرتے ہیں لیکن دوکانوں کے اندر غیرملکی کرنسی کا لین دین چلتا ہے۔ کچھ لوگوں کو تو رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔‘

ایف آئی اے کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ دو مہینوں میں کریک ڈاؤن کے دوران 52 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایف آئی اے کے چھاپوں کی زد میں وہ عام لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنے گھر میں ڈالر رکھے ہوئے ہیں یا جو ڈیلر کرنسی کا کام کرتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال نہیں کرتے اور نہ ہی کاروباری افراد سے ایسی کوئی پوچھ گچھ ہو رہی ہے۔ ہم ان لوگوں کا پیچھا کر رہے ہیں جو غیرقانونی عمل میں ملوث ہیں۔‘
سرفراز ورک نے بتایا کہ ’اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں بی کیٹیگری کے آٹھ کرنسی ڈیلرز کو بھی حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے تفتیش جاری ہے۔‘
ایف آئی اے اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں سب سے زیادہ امریکی ڈالر جبکہ دوسرے نمبر پر درہم تحویل میں لیے گئے ہیں۔

کیا ایف آئی اے کے کریک ڈاون سے صورت حال بہتر ہو گی؟

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سربراہ ملک بوستان ایف آئی اے کے چھاپوں کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث لوگ ہیں جن کو ایف آئی اے حراست میں لے رہی ہے۔ لاکھ دولاکھ ڈالر سے پاکستان کا بحران حل ہونے والا نہیں ہے۔‘

سرفراز ورک نے بتایا کہ ’کریک ڈاؤن کے نتیجے میں بی کیٹیگری کے آٹھ کرنسی ڈیلرز کو بھی حراست میں لیا گیا ہے‘ (فوٹو: آئی سٹاک)

انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’اس بحران کی ذمہ داری نہ ہی کرنسی کے تاجروں پر عائد کی جا سکتی ہے۔ حکومت غیر قانونی کام کرنے والوں کے خلاف کام کرتی رہے ہم ان کے ساتھ ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘
ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ آئی ایم ایف سے معاہدے اورایکسپورٹ سے حل ہو گا۔ اگر ڈالر کی سمگلنگ روکنی ہے تو وہ لاہور کراچی سے تو ہی نہیں رہی ہے۔ اس کے لیے مغربی بارڈر کو دیکھنا ہو گا۔‘

شیئر: