یرغمالی بچے اور اس کے گھر والوں کی لاشیں واپس کرنے کی پیش کش کی: حماس
حماس کے مسلح ونگ نے اعلان کیا تھا کہ اب ختم ہونے والی جنگ بندی کے نفاذ سے پہلے ہی اسرائیلی بمباری میں یری بیباس، کفیر اور ایریل مارے گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
غزہ کی حکمراں حماعت اور عسکریت پسند تنظیم حماس نے جمعے کو کہا ہے کہ اس نے ایک ماں اور اس کے دو بیٹوں کی لاشیں واپس کرنے کی پیشکش کی تھی تاکہ حال ہی میں ختم ہونے والی عارضی جنگ بندی میں توسیع ہو سکے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یری بیباس، ان کا 10 ماہ کا بیٹا کفیر اور اس کا چار سالہ بھائی ایریل، اپنے والد یارڈن کے ساتھ، کیفیر کی عمر کی وجہ سے 7 اکتوبر کے حملوں میں سامنے آنے والے انسانی المیے کی علامت بن گئے ہیں۔
رواں ہفتے کے آغاز میں حماس کے مسلح ونگ نے اعلان کیا تھا کہ اب ختم ہونے والی جنگ بندی کے نفاذ سے پہلے ہی اسرائیلی بمباری میں یری بیباس، کفیر اور ایریل مارے گئے تھے۔
تاہم اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ اس دعوے کی تحقیقات کر رہی ہے لیکن ابھی اس کی تصدیق نہیں کر سکتی۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان سات دن کی جنگ بندی پر مزید کوئی معاہدہ نہ ہونے کے بعد جمعے کی صبح لڑائی دوبارہ سے شروع ہو گئی ہے۔
عارضی جنگ بندی کی شرائط کے تحت حماس نے درجنوں اسرائیلی یرغمالیوں کو دو سو زائد فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں واپس کیا۔
فلسطینی عسکریت پسند گروپ نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ ’رات بھر جنگ بندی میں توسیع کے لیے بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہوا۔‘
’حماس نے بیباس کے خاندان کی لاشوں کو منتقل کرنے اور ان کے والد کو دو صہیونی نظربندوں کے ساتھ ان کی تدفین کے لیے رہا کرنے کی بھی پیشکش کی۔ لیکن اسرائیلی حکام نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اسرائیل حماس کی طرف سے آنے والی پروپیگنڈا پر مبنی رپورٹس پر کوئی ردعمل نہیں دیتا۔‘