Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کانپور کے عالم بيگ کی کھوپڑی جو 166 سال بعد برطانیہ نے انڈیا کو واپس کی

یہ انسانی کھوپڑی کینٹ کے ویمر میں لارڈ کلائیڈ پب میں سنہ 1963 میں آئی تھی اور ایک عرصے تک وہاں کی زینت بنی رہی۔ (فوٹو: نیوزاِن)
نومبر کی ایک سرد اور بارش والی شام انگلینڈ کے ساحلی اور محلات کے لیے معروف شہر کینٹ کے ریلوے سٹیشن پر ایک شخص اپنے بیگ میں ایک انسانی کھوپڑی لیے کھڑا تھا۔
یہ کوئی عام شخص نہیں اور نہ ہی ان کے بيگ میں پڑی کھوپڑی کو عام کھوپڑی تھی۔ یہ انگلینڈ کی کوئنز میری یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر کم اے ویگنر تھے اور ان کے بيگ میں جو کھوپڑی تھی اس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے یوم پیدائش کے دن انہیں ایک دوست جوڑے کی جانب سے تحفے میں ملی تھی۔
پہلے کی طرح اس دن ڈاکٹر ویگنر نے اس جوڑے سے ملاقات کی جن کے پاس وہ کھوپڑی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کھوپڑی انہیں وراثت میں ملی ہے۔ انھیں یہ عمارت کے عقب میں ایک چھوٹے سے کمرے میں پرانے کریٹس اور بکسوں کے نیچے رکھی ہوئی ملی۔
کوئی بھی نہیں جانتا کہ یہ کھوپڑی ان کے پب میں کیسے پہنچی لیکن مقامی میڈیا نے سنہ 1963 میں اس کے بارے میں رپورٹس شائع کی تھیں اور اس جگہ کے مالک نے اس کھوپڑی کے ساتھ کسی ٹرافی کی طرح اپنی تصویر کھنچوائی تھی اور اسے نمائش کے لیے سجا دیا گیا تھا، لیکن جب مالکان کی موت ہو گئی تو آخر کار اسے ان کے رشتہ داروں تک پہنچا دیا گیا جنھوں نے اس ’مہیب کھوپڑی‘ کو چھپا دیا۔
پروفیسر ویگنر بتاتے ہیں کہ کس طرح وہ ’اس کھوپڑی کو اپنے بیگ میں ڈال کر ایک چھوٹے سے سٹیشن پر ٹرین کا انتظار کر رہے تھے۔ نہ صرف یہ کوئی عام کھوپڑی تھی بلکہ وہ براہ راست تاریخ کے اس حصے سے متعلق تھی جس کے بارے میں وہ لکھتے رہے تھے اور ہر برس اپنے طلبہ کو پڑھاتے رہے تھے۔‘
یہ انسانی کھوپڑی کینٹ کے ویمر میں لارڈ کلائیڈ پب میں سنہ 1963 میں آئی تھی اور ایک عرصے تک وہاں کی زینت بنی رہی۔ تقریباً 51 سال بعد 2014 میں اس کے مالک نے اس کھوپڑی کو ڈنمارک نژاد برطانوی تاریخ داں کم اے ویگنر کو سونپ دیا تھا کیونکہ وہ اس جگہ آتے جاتے ان کے دوست بن گئے۔ مالک نے سوچا کہ یہ کھوپڑی ان کی دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہے۔
جب یہ کھوپڑی ان کے حوالے کی گئی تو اس کا نچلا جبڑا اور تقریباً سارے دانت غائب ہو چکے تھے۔ بہرحال کھوپڑی کے آنکھوں کے گڑھے میں ایک کاغذ کا ٹکڑا ٹھونسا ہوا تھا جس میں ایک قلمی تحریر تھی۔ اس میں یہ لکھا تھا کہ یہ کھوپڑی حوالدار عالم بیگ کی ہے جو دیسی بنگالی پیدل فوج کی 46ویں رجمنٹ کے حوالدار تھے۔ انہیں اور ان کی رجمنٹ کے کئی ساتھیوں کو توپ کے سامنے رکھ کر اڑا دیا گیا تھا۔

2014 میں پب کے مالک نے اس کھوپڑی کو برطانوی تاریخ داں کم اے ویگنر کو سونپ دیا تھا۔ (فائل فوٹو: یوٹیوب)

کم اے ویگنر نے کھوپڑی میں ملنے والی تحریر کی صداقت کے لیے اس مبینہ عالم بیگ کی کھوپڑی کو برطانیہ کے نیچرل ہسٹری میوزیم بھیجا تو وہاں سے اس کی ممکنہ صداقت کی تصدیق ہو گئی۔ اس کے بعد پروفیسر ویگنر نے عالم بیگ کی کھوپڑی کے حوالے سے 1857 کی بغاوت پر ایک کتاب ’دی سکل آف عالم بیگ‘  تحریر کی۔
اس کتاب میں انہوں نے نہ صرف 1857 کی بغاوت (جسے ہندوستان میں پہلی جنگ آزادی کہا جاتا ہے) کی تاریخ رقم کی ہے بلکہ بہت سے دوسرے پہلوؤں پر بھی نظر ڈالی ہے۔

عالم بیگ کون تھے؟

عالم بیگ کی کھوپڑی کی آنکھوں سے جو تحریر برامد ہوئی اس میں بس اتنا ہی تحریر تھا:
’یہ عالم بیگ کی کھوپڑی ہے جو 46ویں رجمنٹ بنگال این انفنٹری سے تھے، جنہیں ان کے کئی ساتھیوں کے ہمراہ توپ سے اڑا دیا گیا تھا۔ وہ 1857 کے بغاوت کے ایک اہم رہنما اور انتہائی خود سر مزاج رکھتے تھے۔ انہوں نے قلعے کی طرف جانے والی سڑک پر (ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ) چند یورپین کو اپنے قبضے میں لے لیا، جہاں تمام یورپی اپنی حفاظت کے لیے بھاگے جا رہے تھے۔ ان کے گروہ نے ڈاکٹر گراہم پر اچانک حملہ کر دیا۔ انہیں ان کی چھوٹی گاڑی میں ان کی بیٹی کے پہلو میں گولی مار کرہلاک کر دیا گیا۔ ان کا اگلا شکار مشنری ریونڈ مسٹر ہنٹر تھے جو اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ اسی سمت بھاگ رہے تھے۔ انہوں نے مسٹر ہنٹر کو قتل کر دیا، اور ان کی بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کے بعد سڑک کے کنارے انہیں قتل کر دیا۔‘
’عالم بيگ کی عمر تقریباً 32 سال تھی۔ ان کا قد پانچ فٹ ساڑھے سات انچ تھا اور وہ کسی بھی طرح سے بیمار نظر آنے والے مقامی نہیں تھے۔ کھوپڑی کو کیپٹن (اے آر) کوسٹیلو (کیپٹن 7ویں ڈریگ گارڈز) کے ذریعے برطانیہ لایا گیا تھا، جو عالم بیگ کی پھانسی کے وقت ڈیوٹی پر تھے۔

اس کتاب میں کم اے ویگنر نے نہ صرف 1857 کی بغاوت کی تاریخ رقم کی ہے بلکہ بہت سے دوسرے پہلوؤں پر بھی نظر ڈالی ہے۔ (فوٹو: پینگوئن انڈیا)

پروفیسر ویگنر کی تحقیق نے عالم بیگ کے متعلق مزید پرتیں کھولی ہیں اور یہ پتہ چلا ہے کہ وہ کانپور کے رہنے والے تھے۔ وہ غدر کے وقت پاکستان کے شہر سیالکوٹ کے پاس میاں میر میں تعینات تھے اور انہوں نے سیالکوٹ کی بغاوت میں حصہ لیا تھا۔
ہندوستان کے محققوں نے بتایا ہے کہ اجنالہ کے پاس ایک کنویں سے 282 لاشیں ملی تھیں جن کے بارے میں کہا جاتا رہا تھا کہ وہ سنہ 1947 کے فسادات کی تھیں لیکن پروفیسر ویگنر کی تحقیق کے بعد اب یہ عقدہ تقریباً حل ہو گیا ہے کہ یہ 1857 میں قتل کیے جانے والے ان ہندوستانی فوجیوں اور ديگر لوگوں کی لاشیں تھیں جن کے ساتھ عالم بیگ بھی تھے لیکن وہ جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
انڈیا کے ہندی اخبار ’نوبھارت ٹائمز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت امرتسر کے کمشنر فریڈرک ہنری نے اپنی کتاب ’دی کرائسس ان پنجاب‘ میں لکھا ہے کہ ’1857 میں تقریباً 500 ہندوستانی سپاہیوں نے سیالکوٹ میں بغاوت کی تھی اور وہ پنجاب کی جانب بڑھ رہے تھے۔ انگریزی فوج نے ان میں سے کئی کو دریائے راوی کے کنارے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا اور پھر بہت سے سپاہیوں کو گولی مار کر اجنالہ کے کنویں میں پھینک دیا تھا۔‘
کم اے ویگنر کے مطابق عالم بیگ امرتسر کے قریب واقع قصبے اجنالہ میں مارے جانے والے سپاہیوں کے سربراہ تھے لیکن وہ بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انہیں بالآخر کانپور سے پکڑ کر سیالکوٹ لایا گیا۔ جب برٹش کمشنر ہنری کوپر کو پتہ چلا کہ ملکہ وکٹوریہ ہندوستان تشریف لا رہی ہیں تو انھوں نے عالم بیگ کو ان کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور انہیں توپ کے گولے سے اڑا دیا گيا۔
اس کے بعد ان کی کھوپڑی کو گرم پانی میں ڈال کر اس کی کھال نکالی گئی۔ ان کے سر کو بعض لوگوں نے ’گرزلی ٹرافی‘ یا مہیب ٹرافی کا نام دیا ہے جسے غدر کے اگلے برس انگلینڈ لے جایا گیا۔

عالم بیگ اور ان کی رجمنٹ کے کئی ساتھیوں کو توپ کے سامنے رکھ کر اڑا دیا گیا تھا۔ (فائل فوٹو: نیوزاِن)

ہندی روزنامے ’ہندوستان‘ کے مطابق رواں برس یہ کھوپڑی چنڈی گڑھ کے ایک پروفیسر کی کوششوں کے نتیجے ہندوستان کو واپس کر دی گئی ہے اور اس طرح 166 سال بعد امید کی جا رہی ہے کہ مرنے والے کی روح کو سکون حاصل ہوگا کہ انہیں ان کی سرزمین مل گئی ہے جس کے لیے انہوں نے جدوجہد کی تھی۔

شیئر: