Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خصوصی افراد کے لیے استعمال شدہ گاڑیوں کی ڈیوٹی فری امپورٹ کی سفارش

حکام کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں خصوصی افراد کے لیے صرف تین گاڑیاں امپورٹ کی گئیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی آبادی میں 16 فیصد خصوصی افراد شامل ہیں مگر ان کے لیے استعمال شدہ گاڑی کی درآمد کسی امتحان سے کم نہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے وزارت تجارت کو خصوصی افراد کے لیے گاڑیوں کی امپورٹ کے عمل کو سہل بنانے اور اس پر کم سے کم ٹیکسز عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔
پیر کو سینیٹر عبدالقادر نے قائمہ کمیٹی میں خصوصی افراد کو گاڑیوں کی امپورٹ کے حوالے سے درپیش مسائل کا معاملہ اٹھایا۔ انہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت ملک میں خصوصی افراد کو گاڑیوں کی امپورٹ پر مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ خصوصی افراد کو استعمال شدہ گاڑی کی درآمد کی بھی اجازت دی جائے، وزارت صنعت کا اعتراض درست نہیں اور خصوصی افراد کو سستی گاڑی کی درآمد کی اجازت ہونی چاہیے۔ سینیٹر عبدالقادر نے تجویز دی کہ خصوصی افراد پر گاڑی کی درآمد کے بعد 5 سال گاڑی فروخت کرنے کی پابندی عائد کردی جائے۔
تین برسوں میں خصوصی افراد کے لیے صرف تین گاڑیوں کی درآمد
وزارت تجارت کے اعلٰی حکام نے کمیٹی کو معاملے پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ خصوصی افراد کے لیے گاڑیوں کی سہولت سٹیٹ بینک کے ذریعے ہوتی ہے۔ وزارت صنعت و پیداوار کو اعتراض ہے کہ خصوصی افراد کے لیے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر پابندی نہ ہٹائی جائے۔ گذشتہ تین سالوں میں خصوصی افراد کے لیے صرف تین گاڑیاں امپورٹ کی گئیں۔ خصوصی افراد کے لیے سیکنڈ ہینڈ کار کی ڈیوٹی فری درآمد کی سمری پر 2021 میں غور کیا گیا۔ وزارت صنعت نے اس سمری پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ 
خصوصی افراد کے لیے گاڑی کی درآمد پر مشکل شرائط
وزارتِ تجارت کے حکام کا کہنا تھا کہ خصوصی افراد کو گاڑی درآمد کرنے کی اجازت خصوصی کمیٹی دیتی ہے۔ خصوصی افراد پہلے محکمہ صحت کو درخواست دیتے ہیں پھر وہاں سے کمیٹی کے پاس درخواستیں غور کے لیے آتی ہیں۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے وزارت تجارت حکام کے سے استفسار کیا کہ خصوصی افراد کو نادرا شناختی کارڈ جاری کرتا ہے اس کے لیے کمیٹی کی کیا ضرورت ہے۔ وزارت تجارت تین چار سال تو گاڑی درآمد کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ خصوصی افراد کے لیے گاڑی کی درآمد کے لیے پہلے لائسنس حاصل کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ خصوصی افراد پہلے محکمہ صحت کو درخواست دیتے ہیں پھر وہاں سے کمیٹی کے پاس درخواستیں غور کے لیے آتی ہیں۔ سینیٹر فدا محمد نے اعتراض اٹھایا کہ خصوصی افراد کس طرح این ٹی این اور لائسنس کی شرط پوری کرے گا؟
قائمہ کمیٹی نے معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت تجارت کو خصوصی افراد کے لیے گاڑیوں کی امپورٹ کے عمل کو سہل بنانے اور اس پر کم سے کم ٹیکسز عائد کرنے کی ہدایت کر دی ہے، اور کہا کہ خصوصی افراد کی درخواست پر تین ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔
کمیٹی نے مزید ہدایت کی کہ خصوصی افراد کے لیے 1300 سی سی سے زائد کی گاڑیوں کی درآمد کی بھی اجازت دی جائے۔ وزارت تجارت تمام طریقہ کار پر نظر ثانی کے لیے اپنی تجاویز کمیٹی کو دے اور خصوصی افراد کو سستے قرض کی سہولت بھی فراہم کی جائے۔

شیئر: