Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپین میں انتہاپسندی کے الزام میں گرفتار کیے گئے 15 پاکستانی ملک بدر

گرفتار افراد پر الزام تھا کہ ان افراد نے ایک نیٹ ورک تشکیل دیا تھا جس میں انتہا پسندی کے پیغامات آن لائن پھیلائے جا رہے تھے۔
یورپی ممالک سپین، یونان اور جارجیا نے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے 40 پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرکے پاکستان واپس بھیج دیا ہے جن میں 15 وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جنھیں سپین کی پولیس نے انتہا پسندی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ 
جمعرات کی صبح جارجیا کے تبلیسی ایئرپورٹ سے روانہ ہونے والی خصوصی پرواز اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچی جس میں 40 مسافر سوار تھے۔
ان مسافروں میں سپین سے 15 یونان سے 12 اور جارجیا اورالبانیہ سے  ملک بدر کیے جانے والے 13 پاکستانی شامل تھے۔
سپین کے مقامی میڈیا کے مطابق سپین سے ڈی پورٹ ہونے والے 15 پاکستانیوں کو گذشتہ ماہ سپین کی پولیس نے انتہا پسندی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
مقامی میڈیا کے مطابق سپین کے متعدد صوبوں سے مجموعی طور پر 15 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ حراست میں لیے گئے تمام افراد پاکستانی نژاد تھے اور وہ کاتالونیا، ویلنسیا، گیپوزکوا، ویٹوریا، لوگروانو اور لیڈا میں مقیم تھے۔
 7 افراد کو بارسلونا، ایک یعیدا، دو ویلنسیا، دو گیپزکوا، ایک ویٹوریا اور ایک پاکستانی کو لوگرونیو شہر سے گرفتار کیا گیا۔
گرفتار افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک نیٹ ورک تشکیل دیا تھا جس میں انتہا پسندی کے پیغامات آن لائن پھیلائے جا رہے تھے۔ 
اس سے قبل اکتوبر میں بھی پولیس کی طرف سے انسداد دہشت گردی آپریشن کے نتیجے میں میں چار مشتبہ افراد کو پکڑا گیا تھا۔ یہ گرفتاریاں گریناڈا میونسپلٹی ہیوٹرتاجر، بارسلونا کے کیوبیلس اور میڈرڈ میں ہوئیں۔ 
آپریشن میں حراست میں لیے گئے افراد میں سے دو شادی شدہ جوڑے تھے جنہیں بظاہر آن لائن سوشل میڈیا گروپس میں اکٹھا کیا گیا تھا۔ 
پاکستان کے تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے ان افراد کے ڈی پورٹ ہونے اور پاکستان پہنچنے کی تصدیق تو کی ہے، تاہم ان پر عائد الزامات اور اس سلسلے میں پاکستان میں ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے حوالے سے معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔ 
اس حوالے سے پہلے گرفتار اور بعد ازاں ڈی پورٹ کیے گئے ایک پاکستانی کے بھائی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ میرے بھائی اور دیگر پاکستانیوں پر انتہا پسندی کا نیٹ ورک چلانے کا الزام بے بنیاد ہے۔
’نہ ہی اسے یہاں مقامی عدالت میں ثابت کیا جا سکا ہے ورنہ انھیں ڈی پورٹ نہ کیا جاتا۔ کچھ لوگوں نے ٹک ٹاک پر ٹی ایل پی کا مواد یا اس پر مبنی ویڈیوز ضرور اپ لوڈ کی تھیں لیکن انھیں یہ معلوم بھی نہیں تھا کہ اس مواد کی بنیاد پر انتہا پسندی کے الزام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ‘
انھوں نے کہا کہ ابھی تک ہمیں معلوم نہیں ہے کہ پاکستان پہنچنے پر ان کو گرفتار کیا گیا ہے یا جانے دیا ہے کیونکہ ابھی تک میرا بھائی سے یا اہل خانہ سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ 
گذشتہ ہفتے اٹلی میں بھی پولیس نے دو افراد کو دہشت گرد گروپوں بشمول القاعدہ، داعش اور دیگر کے لیے آن لائن پروپیگنڈہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ 

شیئر: