Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یرغمالیوں کی ہلاکت، اہل خانہ کا اسرائیلی فوج پر ’قتل‘ کا الزام

اسرائیل نے اعتراف کیا ہے کہ فوجیوں کی غلطی سے یرغمالی مارے گئے۔ فوٹو: اے پی
غزہ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی یرغمالی ایلون شمریز کے بھائی نے الزام عائد کیا ہے کہ فوج نے ایلون کو ’تنہا چھوڑ‘ دیا اور انہیں ’قتل‘ کر ڈالا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 26 سالہ ایلون شمریز ان تین اسرائیلی یرغمالیوں میں شامل تھے جو جمعے کو غزہ کے علاقے شجاعیت میں لڑائی کے دوران اسرائیلی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے، اگرچہ انہوں نے سفید رنگ کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور ہیبریو زبان میں مدد کے لیے پکار رہے تھے۔
اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ ایلون شمریز، یوتم ہیم اور سمر الطلقا اس وقت مارے گئے جب فوجیوں نے انہیں خطرہ سمجھتے ہوئے فائرنگ کر دی۔
اتوار کو اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کے شمال میں ایلون شمریز کی آخری رسومات ادا کی گئیں جہاں بڑی تعداد میں لواحقین نے شرکت کی۔ 
اس موقع پر ان کے بھائی ایدو نے کہا ’جنہوں نے تمہیں تنہا چھوڑ دیا، انہوں نے ہی تمہارا قتل کیا ہے۔‘
ایلون شمریز کی والدہ نے اپنے بیٹے کی تدفین کے وقت کہا ’تم نے 70 دن جہنم میں گزارے۔ ایک لمحے بعد تم میری بانہوں میں ہو سکتے تھے۔‘
اسرائیلی میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والے یرغمالی سمر الطلقا کو سنیچر کو سپرد خاک کیا گیا تھا جبکہ یوتم ہیم کی آخری رسومات پیر کو ادا ہونی ہیں۔
یہ تینوں نوجوان جو عمر کے بیسویں حصے میں تھے، ان کی ہلاکت پر تل ابیب میں ایک مرتبہ پھر مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ حکام نئی حکمت عملی اپناتے ہوئے باقی 129 یرغمالیوں کو واپس لے کر آئیں۔
اتوار کو اسرائیلی فوج کے ترجمان رچرڈ نے کہا تھا کہ ہلاکتوں کی تحقیقات ہو رہی ہیں اور جو فوجیوں نے کیا وہ ’جنگ کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔‘
رات گئے فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے مطابق تین یرغمالی بظاہر اس عمارت میں موجود تھے جہاں یہ واقعہ پیش آیا ہے۔
ابتدائی معلومات کے بعد عمارت کی جاری کردہ تصاویر میں تینوں یرغمالیوں کی جانب سے مدد کے لیے پکارے جانے کے شواہد ملے ہیں۔
حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد ایک ہزار 319 افراد کو یرغمال بنایا تھا جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

شیئر: