Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گووند نہلانی جن کی کُنڈلی نے ان پر فلمی دنیا کے دروازے کھول دیے

انڈین حکومت کی جانب سے گووند نہلانی کو پدما شری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
تقسیمِ ہند کے دنوں میں راولپنڈی میں فسادات کی آگ بھڑکی تو اس نے پورے پنجاب کو لہو رنگ کر دیا۔ ان فسادات پر بھیشم ساہنی کا ناول ’تمس‘ تقسیم کے 26 برس بعد سنہ 1974 میں شائع ہوا، تب ہندوستان سقوطِ ڈھاکہ کے بعد تین حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔
بھشیم ساہنی، بلراج ساہنی کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ بلراج ساہنی جنہوں نے ہندوستان کے متوازی سینما کی یادگار فلم ’دو بیگھہ زمین‘ میں شمبھو مہتا کا کردار ادا کیا تھا۔
بات بھیشم ساہنی کے ناول ’تمس‘ کی ہو رہی تھی جس پر اسی نام سے 14 برس بعد ٹیلی فلم بنائی گئی۔ اوم پوری نے اس فلم میں چمار نتھو کا کردار ادا کیا تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح کردار میں کچھ یوں ڈوب گئے کہ پوری ٹیلی فلم بس اس ایک کردار کے نام کی جا سکتی ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار گووند نہلانی تھے جو اپنی ہدایت کاری سے بولتی تصویروں میں رنگ بھرنا جانتے تھے۔
ممبئی کی فلمی نگری کا یہ مہان ہدایت کار، پروڈیوسر، مصنف اور سنیماٹوگرافر 19 دسمبر 1940 کو غیرمنقسم ہندوستان کے ساحلی شہر کراچی میں پیدا ہوا۔ وہ بچپن میں صرف مذہبی و تاریخی موضوعات پر فلمیں دیکھا کرتے تھے کیوںکہ دوسری کوئی فلم دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔
گووند نہلانی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے انڈین ویب سائٹ ’سکرول‘ کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا:
’ہم جب بچے تھے تو ان فلموں کے علاوہ کسی اور طرح کی فلم نہیں دیکھ سکتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اپنی پہلی فلم اپنے چچا کے ساتھ دیکھی۔ اس فل میں نرگس دَت نے کام کیا تھا جس کی کہانی گجرات کے شاعر نرسن مہتا کی زندگی پر مبنی تھی۔‘
تقسیم نے گووند نہلانی کی زندگی پر بھی گہرا گھائو لگایا اور وہ بھیشم ساہنی کی طرح اپنی دھرتی سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ان کے خاندان نے ہجرت کر کے جودھپور میں رہائش اختیار کی۔ بعدازاں اودے پور میں بس گئے جہاں ان کے والد اناج کے کاروبار سے منسلک ہو گئے۔

بھیشم ساہنی کے ناول ’تمس‘ پر سنہ 1988 میں ٹیلی فلم بنائی گئی۔ (فوٹو: ایکس)

اودے پور میں گووند نہلانی سنیچر اور اتوار کو اکثر انگریزی فلمیں دیکھا کرتے۔ اسی دور میں ان کی فوٹوگرافی میں دلچسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے بالآخر فلمی کیمرہ مین کے طور پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔
اس کہانی میں اس وقت ایک دلچسپ پڑاؤ آیا جب اودے پور سے تعلیم مکمل کر کے 18 سال کے گووند نہلانی نے والد سے فلموں میں کام کرنے کی اجازت طلب کی۔ یہ بات اُن کے والد کے لیے قبول کرنا آسان نہیں تھی۔
اس وقت قدرت نے ان کا ساتھ دیا کیونکہ ان کے والد نے فوری طور پر ان کو انکار نہیں کیا بلکہ خاندان کے گورو سے مشورہ مانگا جنہوں نے ان کی کنڈلی نکالی اور پیش گوئی کی کہ ’یہ لڑکا ایک ایسے شعبے میں کامیاب ہو گا جس میں ٹیکنالوجی، مشین اور آرٹ ہو گا اور سینما چوں کہ ان تینوں چیزوں پر انحصار کرتا ہے تو اس لیے اسے اس کا شوق پورا کرنے دیا جائے۔‘
یوں نوجوان گووند نہلانی کے لیے وہ بند دروازہ کھل گیا جس کی انہوں نے اس وقت امید بھی نہیں کی تھی اور وہ بنگلور (بنگلورو) کے ایک تعلیمی ادارے میں داخل ہو گئے۔ یہاں سے انہوں نے سینماٹوگرافی کا تین سال کا کورس کیا اور ان تین برسوں کے دوران ان کو اپنے والد کا پورا تعاون حاصل رہا۔
22 سال کی عمر میں نوجوان گووند آنکھوں میں کئی خواب سجائے مہا فلم نگری ممبئی آ گئے اور لیجنڈری سینماٹوگرافر وی کے مورتھی کے معاون کے طور پر کام کرنے لگے۔

گووند نہلانی کی پہلی فلم ’آکروش‘ میں اوم پوری کے علاوہ نصیرالدین شاہ، امریش پوری اور سمیتا پاٹیل نے اہم کردار ادا کیے۔ (فوٹو: یوٹیوب)

وی کے مورتھی ہندی فلمی صنعت کے پہلے سینماٹوگرافر تھے جنہیں سنہ 2010 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا تھا۔ وی کے مورتھی کو بلیک اینڈ وائٹ دور کا جادوگر کہا جاتا جاتا تھا جنہوں نے کاغذ کے پھول، پیاسا سمیت کئی یادگار فلموں کی عکس بندی کی۔
وی کے مورتھی ہی فلم ’تمس‘ کے سینماٹوگرافر تھے جس میں نتھو کے ’سور‘ کو شکار کرنے کے منظر کو انہوں نے اس خوب صورتی سے فلم بند کیا تھا جسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔
بات ’تمس‘ کے نتھو یعنی اوم پوری کی نکلی ہے تو یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ گووند نہلانی اور اوم پوری کی جوڑی نے بالی وڈ کے متوازی سینما کی روایت کے فروغ میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔
گووند نہلانی کی سنہ 1980 میں پہلی فلم ’آکروش‘ ریلیز ہوئی جس میں اوم پوری کے علاوہ نصیرالدین شاہ، امریش پوری اور سمیتا پاٹیل نے اہم کردار ادا کیے۔ اس فلم نے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا میں بہترین فلم کا ایوارڈ حاصل کرنے کے علاوہ اس سال کی بہترین ہندی فلم کا نیشنل ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔ اس فلم نے بہترین ہدایت کار، اداکار اور معاون اداکار سمیت چھ فلم فیئر ایوارڈ جیتے تھے۔
’آکروش‘ کی ریلیز کے بعد اوم پوری گووند نہلانی کی فلموں کا لازمی حصہ بن گئے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ گووند بڑے ہدایت کار ہیں یا اوم پوری بڑے اداکار۔

اوم پوری اور گووند نہلانی کی جوڑی نے بالی وڈ کے متوازی سینما کی روایت کے فروغ میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ (فوٹو: بالی وڈ ڈائریکٹ)

سنہ 1983 میں گووند کی فلم ’اردھ ستیہ‘ ریلیز ہوئی جس میں اوم پوری نے سب انسپکٹر آننت کا کردار ادا کیا تھا۔ ان دونوں فلموں نے اداکار کے لیے ایوارڈز کے دروازے کھول دیے تھے اور وہ ’آکروش‘ میں اداکاری پر اپنا پہلا فلم فیئر ایوارڈ اور ’اردھ ستیہ‘ میں اداکاری پر نیشنل ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس فلم نے پانچ فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیے تھے جن میں بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔
اوم پوری کا ذکر پھر کبھی سہی۔ گووند نہلانی جلد ہی تشہیری صنعت سے وابستہ ہو گئے۔ انڈین ویب سائٹ ’سکرول‘ کے لیے آدتیہ شرما لکھتے ہیں کہ ’گووند نے تشہیری صنعت میں ملازمت اختیار کی جہاں ان کی ملاقات لیجنڈ ہدایت کار شیام بینیگل سے ہوئی۔ دونوں نے بہت سے کمرشل ایک ساتھ کیے جو انڈیا بھر کے سینما گھروں میں فلم انٹرول کے دوران نشر کیے جاتے تھے۔ ان دونوں نے کچھ دستاویزی فلموں میں بھی کام کیا۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’شیام بینیگل نے جب اپنی پہلی فلم ’انکور‘ بنائی تو اس کی سینماٹوگرافی کے لیے گووند ان کا فطری انتخاب ٹھہرے جنہوں نے ان کی آٹھ فلموں میں بطور سینماٹوگرافر کام کیا۔ ان میں ’منتھن‘، ’نشانت‘، ’بھومیکا‘ اور ’جنون‘ شامل ہیں۔ وہ اپنی پس پردہ صلاحیتوں کے باعث ’جنون‘ کی سینماٹوگرافی پر نیشنل ایوارڈ جیتنے میں کامیاب رہے۔‘
گووند نہلانی اور شیام بینیگل کا فلمی سفر اگرچہ ایک ساتھ شروع ہوا مگر گووند جب بطور ہدایت کار میدان میں اترے تو شیام بینیگل اس وقت تک ہدایت کار کے طور پر اپنا منفرد مقام بنا چکے تھے۔

شیام بینیگل نے جب اپنی پہلی فلم ’انکور‘ بنائی تو اس کی سینماٹوگرافی کے لیے گووند نہلانی ان کا فطری انتخاب ٹھہرے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بینیگل کی فلموں کی بہترین عکس بندی کا سہرا بلاشبہ گووند نہلانی کے سر بندھتا ہے جنہوں نے ’جنون‘ کی ایسی بہترین سینماٹوگرافی کی کہ فلم بین بے ساختہ اش اش کر اٹھے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ گووند بڑے سینیماٹوگرافر تھے یا بینیگل بڑے ہدایت کار۔
اس حقیقت میں بہرحال کوئی شبہ نہیں کہ گووند نہلانی بینیگل کو اپنا استاد مانتے ہیں۔
گووند نے خود کو صرف ہدایت کاری تک محدود نہیں کیا بلکہ انہوں نے سنہ 1998 تک ریلیز ہونے والی اپنی ہر فلم کی سینماٹوگرافی کے علاوہ بہت سی فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں اور کچھ تو پروڈیوس بھی خود کیں۔
انہوں نے سنہ 2010 کو ’دی ہندو‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’سینماٹوگرافی ایک مشکل لیکن پرجوش کام ہے کیوںکہ اس کے لیے بہت زیادہ توجہ، تخلیقی اپج اور تکنیکی علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ مرینل سین کی عہد ساز فلم ’بھون شوم‘ اور ایم ایس ستھیو کی فلم ’گرم ہوا‘ کے بعد شیام بینیگل نے جس نوع کے سینما کی بنیاد رکھی، اس سے عام ہندی ناظرین تفریح حاصل کرنے کے تناظر میں آگاہ نہیں تھے اور ان فلموں کے مدِنظر باکس آفس پر کامیاب ہونا نہیں تھا۔‘
گووند نہلانی نے اس انٹرویو میں مزید کہا کہ ’میری بطور ہدایت کار پہلی فلم ’آکروش تھی‘ جس کے لیے میں کامیاب فلموں ’دیوار‘، ’بوبی‘ اور ’شعلے‘ کا ایک تہائی سرمایہ ہی حاصل کر سکا تھا۔ میں نے ایک مختصر بجٹ کے ساتھ ’آکروش‘ کو 16 ایم ایم پر ریکارڈ کیا اور پھر اسے بڑی سکرین کے لیے 35 ایم ایم پر پھیلایا۔‘

تقسیم نے گووند نہلانی کی زندگی پر بھی گہرا گھائو لگایا اور وہ اپنی دھرتی سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ (فوٹو: دی ہندو)

گووند نے انٹرویو میں بتایا کہ ’آکروش کا سکرپٹ بہت زیادہ گندھا ہوا تھا جسے معروف پلے رائٹ وجے تندولکر نے لکھا تھا۔ میں نے پورے جوش کے ساتھ اس کی ہدایات دیں اور عکس بندی کی اور ہر تفصیل پر گہری نظر رکھی۔ میں نے نانا پالسیکر اور اوم پوری کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگوئج پر خاص توجہ دی۔ ان کی جانب سے ادا کیے گئے بہت سے مکالمے حقیقی محسوس نہیں ہوتے۔ میں آج بھی فخر سے یہ کہتا ہوں کہ میری پوری کاسٹ نے یادگار اداکاری کی اور ’آکروش‘ کو ملک بھر میں سراہا گیا۔ یہ باکس آفس پر بھی کامیاب رہی۔‘
انڈیا کے عظیم ترین سینماٹوگرافر سبراتا مترا کی جانب سے ’درشتی‘ کی تحسین گووند نہلانی اپنے لیے ایک اعزاز تصور کرتے ہیں۔ خیال رہے کہ سبراتا مترا دنیا کی چند عظیم ترین فلموں میں سے ایک ’آپو‘ سیریز کی تینوں فلموں کے سینماٹوگرافر تھے۔
گووند نہلانی نے گذشتہ صدی کے اوآخر میں اجے دیوگن کے ساتھ ’تھک شک‘ اور رواں صدی کے شروع میں امیتابھ بچن کے ساتھ ’دیو‘ بنائی۔ ان دونوں فلموں میں انہوں نے پہلی بار اپنی ڈگر سے ہٹ کر تمام مسالے شامل کیے مگر یہ دونوں فلمیں ہی باکس آفس پر کوئی اثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
دیو‘ کا ذکر ہوا تو اوم پوری کی گووند نہلانی سے ناراضی پر بھی کچھ بات ہو جائے جنہوں نے ’دیو‘ میں امیتابھ بچن کو کاسٹ کیے جانے پر کھل کر اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق انہوں نے کہا تھا کہ ’گووند مجھے ’دیو‘ میں بچن صاحب والے کردار میں کیوں کاسٹ نہیں کر سکتے تھے؟ میں بچن صاحب کا بہت زیادہ احترام کرتا ہوں۔ میں نے روی چوپڑا کی فلم ’بابل‘ میں امیتابھ کے بڑے بھائی کا کردار ادا کیا تھا جب کہ میں ان سے آٹھ سال جونیئر تھا۔‘

اوم پوری نے فلم ’دیو‘ میں امیتابھ بچن کو کاسٹ کیے جانے پر گووند نہلانی سے کھل کر اپنی ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اوم پوری کی گووند سے ناراضی بجا تھی جن کے مطابق انہوں نے گووند کے ساتھ کامیاب ترین فلم ’اردھ ستیہ‘ کی تھی مگر انہوں نے جب بڑے بجٹ کی فلم ’دیو‘ بنائی تو اس میں مرکزی کردار کے لیے بچن صاحب کا انتخاب کیا اور مجھے کرپٹ پولیس والے کا منفی کردار دیا گیا۔
اوم پوری کی اس ناراضی کے باوجود گووند ان کی اداکاری کے ہمیشہ معترف رہے۔ انہوں نے اوم پوری کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اک طرح کا ریلیشن شپ نہیں تھا اوم پوری کے ساتھ۔ یہ ایک دوست، ڈائریکٹر ایکٹر، نقاد اور تخلیق کار کا دوطرفہ تعلق تھا۔ ہم دونوں بے جھجھک ہو کر ایک دوسرے کے بارے میں رائے کا اظہار کیا کرتے تھے۔‘
گووند نہلانی نے تجربات کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ انہوں نے سنہ 2019 میں اینی میٹڈ فلم ’اَپ آپ اینڈ اَپ‘ کی ہدایات دیں۔ اس عمر میں ایک نئی صنف میں تجربہ کرنا آسان نہیں تھا مگر گووند کے تخلیقی ذہن نے وہ بھی کر دکھایا جو بہت سے لوگ جوانی میں بھی کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔
گووند نہلانی بالی وڈ کی تاریخ میں ایک ایسے فلم میکر کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جنہوں نے متوازی سینما کو آگے بڑھانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ انہوں نے چھ نیشنل اور پانچ فلم فیئر ایوارڈز حاصل کیے جب کہ انڈین حکومت کی جانب سے انہیں چوتھے سب سے اہم سویلین ایوارڈ پدما شری سے نوازا گیا جو ایک ایسے ہدایت کار، مصنف، پروڈیوسر اور سینماٹوگرافر کے لیے اس لیے اہم نہیں کہ ان کا کام ایوارڈز کا محتاج نہیں اور ان کی فلموں کی برسوں گزر جانے کے باوجود بھی عوام میں پسندیدگی ہی ان کا ایوارڈ ہے۔

شیئر: