Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ میں امداد کی فراہمی، سلامتی کونسل کی قرارداد پر حماس اور فلسطینی اتھارٹی کا اختلاف

قرارداد میں محفوظ، بلا روک ٹوک اور وسیع تر انسانی رسائی کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
فلسطینی وزارت خارجہ اور اسلامی گروپ حماس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے غزہ میں مزید امداد کی ترسیل سے متعلق منظور ہونے والی قرارداد پر علیحدہ علیحدہ ردعمل دیا ہے جس میں دونوں کا اختلاف سامنے آیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مغربی کنارے میں قائم فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ نے قرارداد کو ’درست سمت میں اقدام‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ’جارحیت کو ختم کرنے، امداد کی آمد کو یقینی بنانے اور فلسطینی عوام کو تحفظ پہنچانے میں مدد ملے گی۔‘
وزارت خارجہ نے جاری بیان میں کہا کہ ’ہم اسے ایک ایسا اقدام سمجھتے ہیں جو غزہ کی پٹی میں لوگوں کی تکلیف کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔‘
تاہم غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے والے عسکریت پسند حماس نے قرارداد کو ’ناکافی اقدام‘ قرار دیا ہے۔ حماس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’گزشتہ پانچ دنوں میں، امریکی انتظامیہ نے بھرپور کوشش کی اس قرارداد کو اس کے بنیادی نکات سے محروم کیا جائے اور ایک کمزور فارمولا کی شکل میں اسے جاری کیا جائے۔۔۔ یہ نہتے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے بین الاقوامی کمیونٹی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی مرضی کے خلاف ہے۔‘
جمعے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں انسانی امداد میں اضافے کے لیے قرارداد منظوری کی تھی جس میں جنگ کے پائیدار خاتمے کی غرض سے حالات پیدا کرنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے 15 رکنی کونسل میں پیش کی جانے والی اس قرارداد کے حق میں 13 ووٹ آئے جبکہ امریکہ اور روس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
سفارتکاروں نے قرارداد پر ردعمل میں کہا تھا کہ جنگ بندی کے حوالے سے اس میں ’کمزور زبان استعمال کی گئی ہے جس پر سلامتی کونسل کے متعدد ارکان کو مایوسی ہوئی ہے۔
منظور کی جانے والی قرارداد میں فوری طور پر محفوظ، بلا روک ٹوک اور وسیع تر انسانی رسائی کی اجازت دینے اور جنگ کے پائیدار خاتمے کے لیے حالات پیدا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
رواں ماہ کے شروع میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ جنرل اسمبلی کے 193 میں سے 153 ممالک نے اس اقدام کے حق میں ووٹ دیا تھا جسے چند روز قبل سلامتی کونسل میں امریکہ نے ویٹو کر دیا تھا۔

شیئر: