Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

میاں داؤد: صحافی جس نے وکیل بن کر سپریم کورٹ کے جج کو استعفے پر ’مجبور کیا‘

بہتر کیریئر کی تلاش میں میاں داؤد نے اس کے بعد دی نیشن، پاکستان ابزرور نامی انگریزی اخباروں میں بھی کام کیا۔ (سکرین گریب)
پاکستان کی سپریم کورٹ کےجج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے خلاف دائر  کرپشن کے الزامات کے ریفرنس کی سماعت مکمل ہونے سے قبل ہی بدھ کے روز اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ انہوں نے اپنا استعفی صدر مملکت عارف علوی کو بھجوا دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس لاہور کے ایک وکیل میاں داؤد نے دائر کیا تھا۔ میاں داؤد کون ہیں اور انہوں نے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف ریفرنس کیوں دائر کیا؟
اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے جو انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ بتائی۔
میاں داؤد پنجاب کے شہر بورے والا میں پیدا ہوئے اس کے بعد تعلیم کی غرض سے لاہور منتقل ہوگئے جہاں سے انہوں نے اکاؤنٹنسی میں ڈگری لینے بعد بطور اکاؤنٹنٹ اپنی پروفیشنل زندگی کا آغاز کیا۔ انہوں نے بتایا ’میں ایک سافٹ ویئر کمپنی میں بطور اکاؤنٹنٹ کام کر رہا تھا جب مجھے ادراک ہوا کہ یہ شعبہ میرے لیے نہیں ہے۔ میں نے صحافت پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ایم اے او کالج کے شعبہ صحافت میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ہی روزنامہ اساس میں بطور رپورٹر نوکری شروع کر دی۔ مجھے شروع دن سے ہی عدالتوں کی رپورٹنگ کی ذمہ داری ملی بس یہیں سے قانون سے ایک گہرا رابطہ شروع ہوا‘
بہتر کیریئر کی تلاش میں میاں داؤد نے اس کے بعد دی نیشن، پاکستان ابزرور نامی انگریزی اخباروں میں بھی کام کیا پھر وہ ٹی وی صحافت سے منسلک ہو گئے اور سٹی 42 اور بول ٹی وی کے لیے عدالتی رپورٹنگ کرتے رہے۔ انہوں نے جرنلزم میں 2005 سے 2018 تک 13 سال گزارے۔

صحافت سے وکالت کا سفر:

اپنی کہانی بتاتے ہوئے میاں داؤد کا کہنا ہے کہ ’صحافت میں پیسے نہ ہونے کے برابر تھے اور اس وجہ سے میں اپنے کیریئر سے بہت زیادہ خوش نہیں تھا۔ عدالتی رپورٹنگ کے دوران مجھے قانون کی خاصی حد تک سمجھ بوجھ آ گئی تھی۔ 2016 میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے مجھے کیریئر تبدیل کرنے کی ترغیب دی۔ ہوا یوں کہ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس اقبال حمید الرحمن ( اقبال حمیدالرحمان حمود الرحمان کمیشن کے سربراہ جسٹس حمود الرحمان کے صاحبزادے ہیں) نے اس بات پر استعفی دے دیا تھا کہ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کچھ ایسی بھرتیاں کیں جو وہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔‘
میاں داؤد نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا ’اسی سیاق و سباق کے ساتھ میں نے ایک خبر دی کہ اس طرح تو لاہور ہائی کورٹ میں بھی بہت سی بھرتیاں ایسی ہیں جو اس اصول کے تحت ختم ہو جائیں گی۔ اس خبر اور میری رائے پر ایک جج صاحب نے مجھے کھلی عدالت میں طلب کر لیا۔ کچھ عدالتی افسران نے انہیں شکایت لگائی تھی۔ جج صاحب نے مجھے بھری عدالت میں کہا کہ آپ فیصلے کی تشریح درست طریقے سے نہیں کر رہے۔ اگر زیادہ شوق ہے تو وکالت کر لو۔ عدالت ختم ہوئی تو ایک وکیل صاحب جو اب جج بن چکے ہیں اںہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا کہ جج صاحب کا مشورہ برا نہیں دیا۔ بس میں نے اسی وقت طے کر لیا کہ اب میں وکالت کروں گا۔‘

جسٹس نقوی کے خلاف ریفرنس کیوں؟

سال 2018 میں میاں داؤد نے وکالت کی ڈگری اور ہائی کورٹ کا لائسنس لینے  کے مراحل مکمل ہونے کے بعد باقاعدہ وکالت شروع کر دی۔

ابتدائی مواد دیکھتے ہوئے کونسل نے جسٹس نقوی کو شو کاز نوٹس جاری کر دیا تھا۔ (فوٹو: ایکس)

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے جسٹس نقوی کے خلاف ریفرنس کیوں دائر کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو سب کے سامنے ہے جب ان کی آڈیو لیک ہوئی جس میں وہ پرویز الہی سے بات کر رہے ہیں اس کے بعد فواد چوہدری کی آڈیو میں ٹرک کا ذکر ہوا تو میں نے اپنے طور پر ہی معلومات اکھٹی کرنی شروع کر دیں۔ لیکن یہاں میں یہ بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ اس ریفرنس کی جڑیں بھی میری صحافت کے دور سے جڑی ہیں۔ ایسی بہت سی باتیں سننے کو ملتی تھیں جن پر کان کھڑے ہو جاتے تھے۔ ان کا رویہ بہت سخت ہوتا تھا مجھے لگتا تھا ان میں بہت تکبر ہے اس وقت بھی میرے ذہن میں خیال آتا تھا کہ ججوں کے احتساب کے عمل کو مزید شفاف ہونا چاہیے۔‘
آڈیو لیکس کے بعد میاں داؤد نے جسٹس نقوی کی جائیداد سے متعلق چھان بین کی اور ان پر آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے خلاف ریفرنس دائر کردیا۔
ابتدائی مواد دیکھتے ہوئے کونسل نے جسٹس نقوی کو شو کاز نوٹس جاری کر دیا۔ دوسرے شوکاز نوٹس کے بعد کونسل کی مزید کاروائی گیارہ جنوری کو ہونا تھی تاہم وہ اس سے پہلے ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں۔
میاں داؤد کا نام البتہ شعبہ وکالت میں اس وقت خبروں کی زینت بنا جب انہوں نے عمران خان پر قاتلانہ حملے کرنے والے ملزم محمد نوید کی وکالت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کیس لینے کا مقصد محص ملزم کو قانونی حق کی فراہمی تھی۔ تاہم جسٹس نقوی کے خلاف ریفرنس کے بعد میاں داؤد کم وقت میں شہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
 

شیئر: