Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا کے ٹرینڈز علیحدہ ہیں اور گلی محلے کے الگ: خرم دستگیر

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر خان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا معاشرے کا ایک انتہائی محدود اور دھندلا آئینہ ہے کیونکہ وہ لوگ جو انگریزی نہیں پڑھ سکتے ان کے فیصلے علیحدہ ہیں، اور جو لوگ سوشل میڈیا پر ہیں ان کی دنیا علیحدہ ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ گوجرانوالہ میں خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’ہم سوشل میڈیا پر جو ٹرینڈز  دیکھتے ہیں، چاہے  وہ گوجرانولہ شہر یا پاکستان  ہے، اس کی گلی محلوں میں ٹرینڈز علیحدہ ہیں اور سوشل میڈیا پر علیحدہ ۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا ایک قابل قدر ٹول ضرور ہے لیکن سوشل میڈیا  کی بنیاد پر سیاسی قیاس آرائی نہ کی جائے۔ قیاس آرائی کا بہترین علاج 8 فروری کو بیلٹ باکس سے ضرور آئے گا۔
خرم دستگیر خان نے کہا کہ ’ہمیں سمجھ آجانی چاہیے کہ ریڈیو پاکستان پشاور کو آگ لگانے سے یہ ملک آگے نہیں جائے گا۔ پشاور کی مویشی منڈی میں ڈیرھ سو بے زبان جانوروں کو آگ لگانے سے یہ ملک نہیں چلے گا، جناح ہاؤس کو جلانے سے ملک آگے نہیں جائے گا، جی ایچ کیو پر حملہ آور ہونے سے ملک آگے نہیں جائے گا، سینکٹروں پولیس آفسروں پر حملہ کرنے سے یہ ملک آگے نہیں جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک سوچی سمجھی سکیم تھی، ایک مخصوص جتھے کی طرف سے کہ ہم نے بحران  پیدا کرنا ہے، کیونکہ میں نے تو بحران پیدا نہیں کیا نہ ہی میں نے جا کر آگ لگائی ہے۔ میں نے جاکر پولیس آفسر پر پیٹرول نہیں پھینکا۔ جن لوگوں نے پلان کے تحت یہ پیدا کیا انہیں یہ ذمہ داری قبول کرنے چاہیے۔
سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’در حقیقت یہ ایک بحران ہے۔ اس الیکشن کے ذریعے یہ موقع ہے کہ ہم عوام کے ووٹ سے اس کو ختم کریں اور اس سے آگے نکلیں۔ اور پاکستان میں ایک صحیح جمہوریت قائم ہو جو 2018 سے پہلے تھی۔
گوجرانوالہ میں تعلیمی اداروں کے قیام کے حوالے سے خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ ’گوجرانوالہ شہر میں، ہم نے 2008 سے 2018 کے درمیان سارے سکول نئے بنا دیے ہیں۔ وہاں سہولیات فراہم کی ہیں، جو بچے کچی زمین پر بیٹھ کر پڑھتے تھے آج وہ پکے فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس تھوڑا وقت ہو تو فرید ٹاؤن میں جا کر لڑکیوں کا سکول دیکھیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے بنیادی حق فراہم کیا ہے۔ یونیورسٹی کے حوالے سے لڑکیوں کا پوسٹ گریجویٹ کالج موجود ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کا سب کیمپس موجود ہے۔ رچنا انجینیئرنگ کالج موجود ہے جو شہر سے ذرا دور ہے۔‘
’یہ کہنا کہ گوجرانوالہ شہر میں اعلی تعلیم کی سہولیات موجود نہیں ہیں یہ غلط ہے۔  یونیورسٹی ضرور ہونی چاہیے۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ یہ جو ڈیمانڈ ہے یونیورسٹی کی یہ تبھی آئی ہے جب شہر کے بنیادی مسائل مسلم لیگ ن حل کر چکی ہے۔

خرم دستگیر خان نے کہا کہ ’2018 کا الیکشن استحصال کا الیکشن تھا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

آئندہ عام انتخابات کی تیاریوں کے بارے میں خرم دستگیر خان نے بتایا کہ ’جب ہم نے دسمبر میں آغاز کیا تھا تو کچھ وقت لگا تھا سیاسی سرگرمیوں کو گئیر اپ کرنے میں، لیکن اب تک تو تیاریاں بھرپور زور و شور سے چل رہی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گوجرانولہ کے رہنے والے اپنے لیے آسانی چاہتے ہیں جو آسانی 2018 تک ہم نے دی ہے۔ گوجرانولہ میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہے وہاں دوائیاں مفت تھیں، ٹیسٹ مفت تھے، زچہ بچہ کے کیس مفت تھے جو کہ 2018 کے بعد ختم ہوگئے۔
خرم دستگیر خان نے کہا کہ ’2018 کا الیکشن استحصال کا الیکشن تھا اور اس میں بہت بے ضابطگیاں  ہوئیں۔ اس میں الیکشن والے دن ہمارے ووٹرز کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔‘
’ان کے لیے پولنگ سٹیشنز کے دروازے بند کیے گئے تھے اور اس کے باوجود اگر اللہ نے کامیابی دی۔ مسلم لیگ ن کو نہ صرف میرے حلقے میں بلکہ پورے ضلع میں اُس وقت 6 قومی اسمبلی کی نشستیں تھیں اور 20 صوبائی اسمبلی کی نشستیں تھیں جو سب کی سب مسلم لیگ ن کو ملیں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ یہاں تمام رکاوٹیں اور استحصال جو ہے اس کے باوجود بھی لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔

شیئر: