Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کو ’ہیلنگ ٹَچ‘ کی سخت ضرورت ہے: اردو نيوز فورم

پاکستان کے سابق وزیرِ اطلاعات اور طویل سیاسی تجربہ رکھنے والے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ’اس وقت ملک کو دہشت گردی اور معیشت کے بحران کا سامنا ہے اور سیاسی طور پر منقسم پاکستان کو دستِ شفا یا ’ہِیلنگ ٹَچ‘ کی ضرورت ہے۔‘
مشاہد حسین سید نے گذشتہ چار دہائیوں سے پاکستان کے انتخابات کور کرنے والے سعودی عرب کے سینیئر صحافی فہیم الحامد سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک انوکھا الیکشن ہے۔ پاکستان کے لیے ایک مشکل وقت ہے۔ الیکشن میں شامل سیاسی جماعتیں تقسیم ہیں۔ یہ ایک ’پولرائزڈ پاکستان‘ ہے۔‘
اردو نیوز کی الیکشن 2024 کی کوریج سے متعلق پینل گفتگو جس کی میزبانی فهيم الحامد نے کی، کے دوران مشاہد حسین سید کے ساتھ انتخابی سیاست کے ماہر اور تجزیہ کار سرور باری بھی شریک تھے۔
 گفتگو کے آغاز پر مشاہد حسین سید نے ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے فہیم الحامد سے کہا کہ ’میں نے آپ کو نوجوان رپورٹر کے طور پر کام کرتے اور انٹرویو کے لیے سابق پاکستانی وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا تعاقب کرتے ہوئے دیکھا ہے، آپ کو پاکستان میں برادر ملک سعودی عرب کے ممتاز صحافی کے طور پر جانا جاتا ہے۔‘

لوگ مسائل کا حل چاہتے ہیں

پاکستان کو درپیش چیلنجز معاشی مسائل، امن امان کی صورتِ حال اور بحرانوں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’گذشتہ چھ برسوں میں (2017 سے  2024 تک) ہمارے چھ وزرائے اعظم تھے۔ میں تو اسے ’سافٹ کُو‘ کہتا ہوں، ایک حکومت آتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے۔ لوگ ان مسائل کا حل چاہتے ہیں۔‘

مشاہد حسین سید کے مطابق ’دہشت گردی کا مقابلہ ہو، معاشی بحران ہو، یا ہیلنگ ٹَچ دینا ہو، تمام سیاسی جماعتوں کو ’رُولز آف دی گیم‘ خود طے کرنا ہوں گے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ ’کوئی ایک شخص، حکومت یا ادارہ یہ مسائل حل نہیں کر سکتا، یہ صورتِ حال مشترکہ لائحہ عمل کی متقاضی ہے جس کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔‘

’سیاسی جماعتوں کو ’رولز آف دی گیم‘ خود طے کرنا ہوں گے‘

مشاہد حسین سید کے مطابق ’دہشت گردی کا مقابلہ ہو، معاشی بحران ہو، یا ہیلنگ ٹَچ دینا ہو، تمام سیاسی جماعتوں کو ’رُولز آف دی گیم‘ خود طے کرنا ہوں گے ورنہ یہ اقتدار یا کرسی کے لیے نہ ختم ہونے والی دوڑ بن جاتی ہے۔‘

 ’اشرافیہ عوام کو حصہ نہیں دینا چاہتی

فہیم الحامد نے سرور باری سے پوچھا کہ ’آپ کے خیال میں پاکستان نے ماضی سے کیا سبق سیکھا ہے؟ پاکستان میں استحکام، خوشحالی اور گڈ گورننس کیسے لائی جا سکتی ہے؟

مشاہد حسین نے کہا کہ سیاسی طور پر منقسم پاکستان کو دستِ شفا یا ’ہِیلنگ ٹَچ‘ کی ضرورت ہے۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

انتخابی امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار سرور باری کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کا سب سے بڑا معاملہ ایک ایسی اشرافیہ ہے جو خود کوئی اتفاق رائے کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی عوام کو ترقی میں کوئی حصہ دینا چاہتی ہے۔‘
 انہوں نے پاکستان میں شرح خواندگی کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان تعلیم کے لحاظ سے خطے میں سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں شرح خواندگی 70 فیصد سے زیادہ ہے اور پاکستان میں ابھی تک 58 فیصد ہے۔ اگر خواتین کی شرح خواندگی دیکھیں تو وہ بہت ہی کم ہے۔‘
’کچھ علاقوں بالخصوص جنوبی پنجاب، بلوچستان اور دیہی سندھ میں خواتین کی شرح خوانگی 20/30 فیصد سے بھی کم ہے۔ کہیں کہیں تو 10 فیصد بھی ہے۔‘

پاکستانی اشرافیہ کی عوام میں جڑیں نہیں ہیں

سرور باری نے ’ہیلنگ ٹچ‘ کی ضرورت کے مشاہد حسین سید کے خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’اشرافیہ اپنے ہی کسانوں اور مزدوروں پر ظلم کرتی رہی تو پاکستان میں کوئی ’ہیلنگ ٹچ‘ آ نہیں سکتا۔ پاکستان کے کل رجسٹرڈ ووٹرز میں سے کسی بھی حکومت کے پاس 18 فیصد سے زیادہ ووٹ بینک نہیں تھا۔‘
’پاکستان کی اشرافیہ کی عوام میں جڑیں نہیں ہیں۔ اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ عوام کو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن 90 فیصد عوام کا گورننس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔‘
’یہ ایک مسلسل خلا ہے جسے کوئی بھی ایسی نئی حکومت پُر کر سکتی ہے جو ایک نیا اور متقفہ نعرہ دے۔ توقع ہے کہ عوام اس کے پیچھے چلیں گے۔‘
گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے فہیم الحامد نے کہا کہ ماضی میں جو ہو گیا، اس پر پاکستانی عوام اور فیصلہ ساز دوبارہ نہیں رونا چاہتے، وہ آگے بڑھنا چاہیے، آپ کے خیال میں اس کا کیا حل ہے؟

پاکستان کو درپیش مسائل کا حال کیا ہے؟

اس پر سرور باری باری کا کہنا تھا کہ ’میں یہ کہوں گا کہ سب سے پہلے پاکستان کی حکومت اور حکمران اشرافیہ آئین کے مطابق لوگوں کے مسائل حل کرے۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل تین کہتا ہے کہ ریاست ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کرے گی۔‘

مشاہد حسین نے کہا کہ الیکشن میں شامل سیاسی جماعتیں تقسیم ہیں۔ یہ ایک ’پولرائزڈ پاکستان‘ ہے۔ (فوٹو: پی ایم ایل این ایکس)

پاکستان کی خارجہ پالیسی بالخصوص دیگر برادر ممالک سے تعلقات سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہی کہہ رہا ہوں کہ ہمیں پاکستانی معاشرے اور اس کی معیشت پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی اور ہمیں بین الاقوامی تعلقات میں اپنا کردار کم کرنا چاہیے۔‘
’اس نکتے پر ممکن ہے مشاہد صاحب کو مجھ سے اختلاف ہو، اس پر ہم بحث کر سکتے ہیں۔ ہم پاکستانی عوام پر انٹرنیشنل سیاست نہیں مسلط کر سکتے۔‘
میزبان فہیم الحامد نے پاکستان کی خارجہ پالیسی بالخصوص سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے تعلقات کے مستقبل کی جہتوں پر مشاہد حسین سید کے سامنے سوال رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی ایک ملک کی اندرونی قوت کی توسیع ہوتی ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

’پاکستان خطے کے ممالک کو جوڑ سکتا ہے‘

مشاہد سید نے کہا کہ ’اگر ہمارے ملک کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں ہیں جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ ٹھیک نہیں ہیں تو آپ دوسرے ممالک کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ میرے خیال میں پاکستان تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں یہ خطے کو جوڑنے میں بہت اچھا کردار ادا کر سکتا ہے۔ علاقائی سطح پر معاشی روابط استوار کرنا سب سے اہم ہوگیا ہے اور اس کے لیے ہماری پوزیشن موزوں ہے۔‘
’جو افغانستان میں ایڈونچر تھا اور جو افغان پالیسیاں تھیں، میں ان کا بہت دیر سے ناقد تھا۔ جب میں ’دی مسلم‘ اخبار میں صحافی کے طور پر کام کر رہا تھا، اس وقت بھی میں اس پالیسی کا ناقد تھا کیونکہ ہم نے غلطیاں کیں، ان کے معاملات میں مداخلت کی اور حکومتیں مسلط کیں، اب وقت بدل چکا ہے، پوری دنیا بدل گئی ہے، ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہت اچھے روابط رکھنے چاہییں۔‘

ہمیں معاشی روابط پر توجہ دینی چاہیے

چین کے علاوہ ہمارے چار پڑوسیوں میں سے تین کے ساتھ مسائل ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم پاک چائنا اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے ذریعے اپنے روابط بہتر بنائیں، اپنی لوکیشن کے اعتبار سے ہم اقتصادی طور پر ایک ابھرتے ہوئے گریٹر ساؤتھ ایشیا کو دیکھ رہے ہیں جس میں چین، خیلجی ممالک، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک شامل ہیں۔یہ ہمارا ہدف ہونا چاہیے کہ ہم معاشی روابط پر فوکس کریں اور پرانی غلطیوں کو نہ دہرائیں۔‘

ہیلنگ ٹَچ کی پورے خطے کو ضرورت‘

مباحثے کے دوسرے مہمان تجزیہ کار سرور باری نے کہا کہ ’میں مکمل طور پر مشاہد حسین صاحب سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہم پاکستان میں اور اس خطے میں پرامن مستقبل دیکھنے کے لیے پرامید ہیں۔ ‘
’اگرچہ غزہ میں جنگ ہو رہی ہے لیکن میرے خیال میں یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے کیونکہ یورپ اور شمالی امریکہ میں سول سوسائٹی کا (جنگ بندی کے لیے) اپنی حکومتوں پر کافی دباؤ ہے۔‘
’مشاہد حسین نے جو پاکستان کے لیے ’ہیلنگ ٹچ‘ کی بات کی ہے، اس ’ہیلنگ ٹچ‘ کے پورے خطے کو ضرورت ہے۔ امن کا قیام پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ لوگوں کی ترقی اسی سے مشروط ہے۔‘
گفتگو کے اختتام کی جانب بڑھتے ہوئے فہیم الحامد نے دونوں مہمان تجزیہ کاروں کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’میں اس گفتگو کو اپنے ناظرین کے لیے ان الفاظ پر ختم کروں گا کہ اس وقت پاکستان کے لیے ’ہیلنگ ٹچ‘ بہت اہم ہے۔‘

شیئر: