Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اس مرتبہ عام انتخابات میں پہلی بار کیا کچھ ہو رہا ہے؟ 

پاکستان میں ورچوئل جلسوں کی روایت پاکستان تحریک انصاف نے قائم کی۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں جب جب انتخابات ہوئے ہر مرتبہ کچھ نہ کچھ نیا سامنے آیا۔ لیکن 8 فروری 2024 کا الیکشن شاید پاکستانی تاریخ کا واحد الیکشن ہے جب بہت سی چیزیں اور اقدامات پہلی مرتبہ ہو رہے ہیں اور قومی سطح پر نئی روایات قائم ہوئی ہے۔ 
تاریخ کی طویل ترین نگراں حکومتیں 
آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات اگر قومی اسمبلی کی تحلیل کی مدت مکمل ہونے کے مطابق منعقد ہوتے تو نومبر 2023 میں ان کا ہونا ناگزیر تھا۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا اور انتخابات تین کے بجائے چھ ماہ بعد ہو رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں وفاق کی سطح پر طویل ترین نگراں حکومت چھ ماہ سے زائد عرصے تک قائم رہی۔
صرف یہی نہیں بلکہ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جنوری میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 9 اپریل 2023 کو انتخابات ہونا طے پائے تھے لیکن دونوں صوبوں میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس حوالے سے دائر ہونے والی درخواستوں کے فیصلے میں 14 مئی کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کا حکم دیا لیکن الیکشن کمیشن نے اس پر بھی عمل درآمد نہ کیا۔ 
اس طرح پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگراں حکومتوں کا دورانیہ ایک سال سے بھی زائد بنتا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں طویل ترین عرصہ ہے۔ 
سیاسی جماعت انتخابی نشان کے بغیر انتخابات میں 
یہ پہلا موقع ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں میں سے وہ جماعت جو 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وفاق اور دو صوبوں میں حکمران جماعت بنی لیکن 2024 کے انتخابات میں اس کے پاس انتخابی نشان موجود نہیں ہے۔ 
ماضی میں سینٹ انتخابات میں تو اس کی مثال ملتی ہے کہ جب 2018 میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں سے شیر کا نشان واپس لے لیا گیا لیکن عام انتخابات میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے کہ کسی سیاسی جماعت سے اس کا انتخابی نشان واپس لیا گیا ہو۔ 

تحریک انصاف کے اکثر رہنما جیل سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے تمام امیدوار الگ الگ انتخابی نشانات پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ 
آزاد امیدواروں کی تعداد، نیا ریکارڈ قائم 
پاکستان تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لیے جانے کے بعد پارٹی نے پاکستان کے تقریباً تمام حلقوں سے اپنے امیدوار آزاد حیثیت میں میدان میں اتارے۔ تحریک انصاف کی جانب سے نامزد امیدواروں کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار میدان میں موجود ہیں۔
اس طرح یہ تعداد ملا کر پاکستان کی تاریخ میں آزاد امیدواروں کی سب سے بڑی تعداد ہونے کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ 
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق کُل 18 ہزار 816 امیدواروں میں سے 11 ہزار 578 آزاد امیدوار ہیں۔ 
خیال رہے کہ 2018 کے انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے امیدواروں کی کُل تعداد 8 ہزار 895 تھی جن میں سے 5 ہزار 500 آزاد امیدوار تھے۔ 
اگر تحریک انصاف قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خاطر خواہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو آزاد امیدواروں کے جیتنے کا بھی ایک نیا ریکارڈ قائم ہونے کا امکان ہے۔
براہ راست انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین امیدواروں کا نیا ریکارڈ
قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 312 جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 570 خواتین امیدوار مقابلے میں کھڑی ہیں۔ سب سے زیادہ 305 خواتین صوبہ پنجاب اور سب سے کم بلوچستان سے 40 خواتین الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ 
قومی اسمبلی کی 266 نشستوں پر 93 خواتین سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر اور 219 آزاد حیثیت سے انتخابی دوڑ میں شامل ہیں۔

 امیدواروں کی بڑی تعداد آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

صوبہ پنجاب سے 305 خواتین جنرل نشستوں پر میدان میں موجود ہیں۔ ان میں سے 62 سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ جبکہ 243 آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ 
صوبہ خیبر پختونخوا سے 69 خواتین جنرل نشستوں پر امیدوار ہیں، ان میں 41 سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر اور 28 آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ 
سندھ سے 156 خواتین انتخابی دوڑ میں شامل ہیں جن میں 61 سیاسی وابستگی اور 95 آزاد حیثیت سے حصہ لے رہی ہیں۔ 
بلوچستان سے 40 خواتین الیکشن میں سامنے آئی ہیں۔ ان میں سے 18 سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں جبکہ 22 آزاد حیثیت سے میدان میں اُتری ہیں۔ 
اس کے برعکس 2018 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 272 جنرل نشستوں کے لیے 171 خواتین امیدواروں نے حصہ لیا تھا جبکہ 2013 میں یہ تعداد 209 تھی۔  
امیدواروں کی بڑی تعداد جیلوں میں 
اگرچہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کوئی انتخابی امیدوار جیل سے الیکشن لڑ رہا ہو۔ اس سے پہلے مولانا کوثر نیازی، چوہدری ظہور الٰہی، جاوید ہاشمی، مولانا اعظم طارق سمیت کئی اہم رہنما جیل سے انتخابات لڑ اور جیت چکے ہیں۔ 
لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دو چار نہیں بلکہ درجنوں رہنما اس وقت جیل میں بند ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انتخابات میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ ان رہنماؤں میں یاسمین راشد، پرویز الٰہی اور کئی دیگر اہم رہنما شامل ہیں۔ 
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید بھی جیل سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ 
ورچوئل جلسے 
ملکی سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف آن گراؤنڈ کوئی جلسہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ تاہم انہوں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے تین ورچوئل جلسوں کا انعقاد کیا۔ ان جلسوں سے جہاں تحریک انصاف کی دستیاب قیادت خطاب کرتی ہے وہیں روپوش رہنما بھی ان جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ 

انتخابات میں براہ راست حصہ لینے والی خواتین کا نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایک ورچوئل جلسہ تحریک انصاف نے اپنے امیدواروں کے ذریعے بھی کیا ہے جس میں ہر حلقے سے امیدوار نہ صرف شریک ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے ووٹرز کے سوالوں کا جواب دیا۔ 
ٹک ٹاک پر جلسے 
پاکستان تحریک انصاف نے ایک اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک کا بھی بھرپور استعمال کرتے ہوئے اس پر بھی جلسوں کا انعقاد کیا ہے۔ ٹک ٹاک پر لائیو جلسوں میں صرف وہ صارفین حصہ لے سکتے تھے جن کے فالوورز کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ تحریک انصاف کے اعداد و شمار کے مطابق لائیو سٹرمینگ پر کروڑوں کے حساب سے لائکس آئے۔ 
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال
چونکہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان جیل میں ہیں اور وہ انتخابی مہم کے سلسلے میں براہ راست عوام سے مخاطب نہیں کر سکتے لہٰذا پارٹی نے اس کا حل یوں نکالا کہ انہوں نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے عمران خان کے پیغامات تیار کیے اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچائے
ان آرٹیفیشل ویڈیوز کے ذریعے عمران خان کی حقیقی آواز کے قریب ترین آواز بنائی گئی جس نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ 
صرف یہی نہیں بلکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے سیاسی جماعتوں نے اپنے قائدین کی امیج بلڈنگ کے لیے بہترین تصاویر بھی بنائیں اور مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے بھی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال کرتے ہوئے ان کی تصاویر بنا کر شیئر کی گئی ہیں۔

شیئر: