Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر: ’حق دو تحریک‘ کے مولانا ہدایت الرحمان کامیاب، ’توقعات کا بوجھ ہوگا‘

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ’حق دو تحریک‘ نے اپنی کامیابی سے گوادر پر گذشتہ چار دہائیوں سے چھائے ہوئے سیاسی خاندانوں کا زور توڑا ہے۔ (فوٹو: فیس بک مولانا ہدایت الرحمان)
گوادر سے بلوچستان اسمبلی کی واحد نشست پر ’حق دو تحریک‘ کے مولانا ہدایت الرحمان نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے سنہ 2008 سے مسلسل تین انتخابات جیتنے والے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے مضبوط امیدوار سابق صوبائی وزیر میر حمل کلمتی کو شکست دی ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان 20 ہزار 925 ووٹ لے کر کامیاب ہوئےاور بی این پی کے امیدوار پر چار ہزار ووٹوں سے برتری حاصل کی جنہوں نے 16 ہزار 522 ووٹ لیے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر حمل کلمتی نے شکست کے بعد دھاندلی کے الزامات لگا کر ریٹرننگ افسر کے دفتر کے باہر احتجاج بھی کیا، تاہم مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ ’شکست کے بعد مخالف امیدوار الیکشن کمیشن کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق سنہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات سے لے کر سنہ 2018 تک گوادر کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر عبدالغفور کلمتی، غوث بخش بزنجو کے ساتھی قوم پرست رہنما حسین اشرف اور ذکری فرقے کے روحانی پیشوا پر مشتمل تین خاندانوں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں، لیکن اس بار اس مقابلے میں ’حق دو تحریک‘ بھی شامل ہوئی جس سے گوادر کی انتخابی سیاست میں بڑی تبدیلی دیکھی گئی۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ’حق دو تحریک‘ نے اپنی کامیابی سے گوادر کی پارلیمانی سیاست پر گذشتہ چار دہائیوں سے چھائے ہوئے ان طاقتور سیاسی خاندانوں کا زور توڑا ہے۔
تین لاکھ آبادی والے بلوچستان کے اس ساحلی ضلع میں بلوچستان اسمبلی کا صرف ایک حلقہ ہے جو پی بی 24 کہلاتا ہے۔ ایک لاکھ 38 ہزار 952 ووٹوں میں سے 50 ہزار سے زائد ووٹ ڈالے گئے یوں ووٹ ڈالنے کی شرح 38 فیصد رہی۔

مولانا ہدایت الرحمان نے بی این پی کے مضبوط امیدوار میر حمل کلمتی کو شکست دی ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

مقامی صحافی صداقت بلوچ کے مطابق گوادر میں پولنگ کے دن 15 سے زائد دھماکے ہوئے۔ اسی طرح ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں لاپتہ افراد کے لواحقین اور ان کے حامیوں پر مشتمل پارلیمانی سیاست کے مخالف سوچ رکھنے والے طبقے کی جانب سے بائیکاٹ کی اپیلیں ٹرن آؤٹ پر اثر انداز ہوئیں ورنہ گوادر میں ٹرن آؤٹ ہمیشہ 60 فیصد سے اوپر رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ بدامنی کے واقعات اور ماہ رنگ بلوچ کی تحریک کے اثرات کے باوجود مولانا ہدایت الرحمان کے لیے ان کے سپورٹرز کا نکلنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
’حق دو تحریک اپنی تشکیل کے بعد پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لے رہی تھی۔ اس نے عوامی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھرپور انتخابی مہم بھی چلائی جس میں خواتین اور نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔‘
مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے تاہم انہوں نے جماعت اسلامی کی بجائے ’حق دو تحریک‘ کو الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے رجسٹرڈ کرا کر خرگوش کے انتخابی نشان پر انتخاب لڑا۔
اس حوالے سے جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی نے کہا کہ ’ہم نے انتخابات میں حق دو تحریک کے ساتھ اشتراک کیا اور اپنے امیدوار دستبردار کرائے۔ مولانا ہدایت الرحمان جماعت اسلامی کے صوبائی نائب امیر اور مرکزی شوریٰ کے رکن ہیں۔ امید ہے کہ ہم حق دو تحریک کے ساتھ ایک اور معاہدہ کریں گے۔ اس طرح وہ جماعت کی پالیسیوں کے مطابق اسمبلی میں ہمارے ساتھ چلیں گے۔‘

مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے تاہم انہوں نے ’حق دو تحریک‘ کو سیاسی جماعت کی حیثیت سے رجسٹرڈ کرا کر انتخاب لڑا۔ (فوٹو: فیس بک مولانا ہدایت الرحمان)

مولانا ہدایت الرحمان کا پی بی 24 کی نشست پر مقابلہ سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے امیدوار میر حمل کلمتی سے تھا جو سنہ 2008 سے 2018 تک مسلسل تین بار یہاں سے کامیاب ہوئے۔ اس سے پہلے ان کے والد بھی دو مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔
ان کے مدمقابل دو دیگر مضبوط امیدواروں میں ذکری فرقے کے روحانی پیشوا خاندان سے تعلق رکھنے والے مہیم جان اور نیشنل پارٹی کے امیدوار اشرف حسین تھے۔ مہیم جان نے 7280 ووٹ لیے جبکہ اشرف حسین نے 3515 ووٹ لیے۔ مہیم جان کا خاندان تین مرتبہ اور اشرف حسین کے والد حسین اشرف دو مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔
گوادر کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ناصر سہرابی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مولانا ہدایت الرحمان کو شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں سے بھی ووٹ ملے۔ ان کی انتخابی مہم بہت اچھی تھی جس میں خواتین اور نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ساتھ ہی ان کے حامیوں نے جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال کیا۔‘
’انتخابی مہم میں حق دو تحریک کا زیادہ زور عوامی اجتماعات پر رہا۔ انہوں نے بڑے جلسے اور کارنر میٹنگز کیں اور بڑے خوبصورت ترانے بھی بنائے ہوئے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حق دو تحریک‘ کے مخالف میر حمل کلمتی اور ان کا خاندان گذشتہ کئی دہائیوں سے اسمبلی اور اقتدار کا حصہ رہے۔ جب حکمرانی کا عرصہ طویل ہوتا ہے تو لوگوں کی توقعات پوری نہ ہونے پر دوریاں اور ناراضی بھی بڑھ جاتی ہے۔ مولانا کی کامیابی میں میر حمل کلمتی مخالف عنصر نے بھی کردار ادا کیا۔

تجزیہ کار ناصر سہرابی کے مطابق مولانا ہدایت الرحمان کو شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں سے بھی ووٹ ملے۔ (فوٹو: ایکس)

ناصر سہرابی کا ماننا ہے کہ ’میر حمل کلمتی گوادر کے لوگوں کے اجتماعی مسائل حل کرنے یا اجاگر کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ وہ روایتی انداز میں سیاست کرتے رہے اس لیے حق دو تحریک کے ابھرنے کے بعد ان کی پذیرائی وہ نہ رہی جو ماضی میں تھی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ عوامی مقبولیت میں ’حق دو تحریک‘ اور ہدایت الرحمان کو برتری حاصل رہی۔ اس عوامی مقبولیت کے پیچھے مولانا ہدایت الرحمان اور ان کی تحریک کی دو تین برس کی محنت ہے۔ انہوں نے سخت حالات برداشت کیے اور عوامی مسائل، سکیورٹی چیک پوسٹوں اور فورسز کے رویے، ماہی گیروں کے مسائل، ٹرالرز اور سرحدی تجارت سے متعلق مسائل پر عوامی رجحانات کی ترجمانی کی۔
دوسری جانب صحافی صداقت بلوچ سمجھتے ہیں کہ مولانا ہدایت الرحمان پر توقعات کا بوجھ ہو گا کہ وہ نہ صرف اسمبلی میں گوادر کی مؤثر آواز بنے بلکہ گوادر پورٹ منصوبوں، سرحدی تجارت، شہر اور سمندر میں نقل و حرکت پر قدغنوں سے متعلق خدشات دور کرائیں۔
ناصر سہرابی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ’حق دو تحریک‘ سے لوگوں کی توقعات بڑھ گئی ہیں کہ اب اس ساحلی شہر سے متعلق تمام فیصلے صرف کوئٹہ یا اسلام آباد میں بیٹھ کر نہیں ہوں گے بلکہ اس میں گوادر کے مقامی لوگوں کی رائے کا بھی خیال رکھا جائے گا۔

مقامی صحافی صداقت بلوچ کے مطابق بدامنی کے واقعات اور ماہ رنگ بلوچ کی تحریک کے اثرات کے باوجود مولانا ہدایت الرحمان کے لیے ان کے سپورٹرز کا نکلنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ (فوٹو: فیس بک مولانا ہدایت الرحمان)

’حق دو تحریک ‘ نے اس سے قبل مئی 2022 کے بلدیاتی انتخابات میں بھی چار جماعتی اتحاد کے مشترکہ اور مضبوط امیدواروں کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی اور شریف میاں داد کو گوادر کی میونسپل کمیٹی کا چیئرمین منتخب کرایا۔

شیئر: