Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لوگ پہاڑوں پر کیوں گئے، اسباب جاننے چاہییں: مولانا ہدایت الرحمان

’بلوچستان کو حق دو‘ تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے ایک ماہ میں معاہدے پرعمل درآمد کا وعدہ کیا تھا، ہم یہ مدت پوری ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، اس کے بعد بھرپور ردعمل دیں گے۔‘
اردو نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے نکات میں غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ شامل تھا، اب تک 700 چیک پوسٹیں ختم کی گئی ہیں، اس معاملے پر پیش رفت تسلی بخش ہے لیکن سمندر میں فشنگ ٹرالرز کا مسئلہ اب بھی باقی ہے۔
بلوچستان میں سیاسی قیادت اور مسائل کا ذکر کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا کہ وہاں سے اشارے ملتے ہیں پیپلز پارٹی میں جاؤ سب وہاں چلے جاتے ہیں، پھر اشارے ملتے ہیں ن لیگ میں جاؤ سب وہاں چلے جاتے ہیں، پھر کہتے ن لیگ کی بھی ضرورت نہیں، پی پی کی بھی نہیں پھر ’باپ‘ بنا لیتے ہیں، کل کو کوئی ’ماں‘ بنا لے گا، لوگ وہی، چہرے وہی ہیں۔
ان کے مطابق ’ہم حکومت کو موقع دے رہے ہیں، ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹرالرز مافیا کو سمندری حیاتیات کی نسل کشی سے غیر قانونی فشنگ سے روکیں، یہ ریاستی اداروں کی آئینی ذمہ داری ہے، ہم کوئی غیر آئینی مطالبہ نہیں کر رہے ہیں۔‘
بلوچستان کو حق دو تحریک کے قائد نے مزید کہا کہ ’ہم قانون ہاتھ میں نہیں لے رہے، ہم یہ کر سکتے ہیں، ہم نے وزیراعلٰی اور گورنر سے کہا ہے کہ سمندر میں جو ٹرالرز غیر قانونی فشنگ کر رہے ہیں اگر آپ ان کو نہیں روک سکتے تو ہم تیار ہیں انہیں روکنے کے لیے۔‘
بلوچستان میں بدامنی کی وجوہات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’کچھ نوجوان اس اذیت اور مصیبتوں سے گزر کر آج پہاڑوں پر پہنچ چکے ہیں، ان سے لاکھ اختلاف کروں لیکن مجھے اس عمل کے اسباب تلاش کرنے چاہییں۔ کوئی پہاڑ پر قورمہ اور بریانی کھانے نہیں گیا ہے، اپنے بچوں کو والدین کو چھوڑ کر وہاں گئے ہیں یہ کوئی مذاق نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟ ان کے ساتھ بات کر کے ان کے ساتھ بیٹھ کر انہیں عزت نہیں دے سکتے؟
مطالبات پر عمل درآمد نہ ہوسکا تو آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ کے جواب میں ’بلوچستان کو حق دو تحریک‘ کے سربراہ اور جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی جنرل سیکریٹری مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم دھرنا دینے کا طریقہ بھولے نہیں ہیں۔‘
’تین ماہ بعد 10 لاکھ افراد لے کر کوئٹہ پہنچیں گے، پھر بھی بات نہ مانی گئی تو 20 لاکھ بلوچوں کو ساتھ لے کر اسلام آباد آئیں گے اور مسائل حل ہونے تک وہاں رہیں گے۔‘

شیئر: