Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جج کے استعفے سے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ختم نہیں ہو سکتی: سپریم کورٹ

جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ اگر ایک جج کے خلاف ریفرنس آئے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس نہ دیا ہو تو کیا وہ ختم ہو جائے گا؟ (فوٹو: اردو نیوز)
سپریم کورٹ نے حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس ریٹائرڈ مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’جب کونسل کارروائی شروع کر دے تو استعفے یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہو سکتی۔‘
بدھ کو سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ یا مستعفی ججز کے خلاف جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری رکھنے سے متعلق وفاقی حکومت کی اپیل پر سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی۔ کیس میں عدالتی معاونین اور اٹارنی جنرل نے دلائل دیے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’جب سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی شروع کردے تو استعفے یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہو سکتی۔‘
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس ریٹائرڈ مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی ہے۔ یہ فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا گیا جس میں عدالت نے وفاقی حکومت کی اپیل مشروط طور پر منظور کر لی، فیصلے میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے اختلاف کیا۔

’سارا مسئلہ چیف جسٹس کے بطور چیئرمین ریفرنس ٹیک اپ نہ کرنے سے بنا‘

دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر کوئی جج سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہونے کے بعد درمیان میں مستعفی ہو جائے تو کیا ہو گا؟ عدالتی معاون اکرم شیخ نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار جج کے استعفے سے نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ’انڈیا میں کلکتہ ہائی کورٹ کی خاتون جج دوران انکوائری ریٹائر ہوئی تو اس کے خلاف کارروائی جاری رہی تھی۔‘
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ اگر ایک جج کے خلاف ریفرنس آئے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس نہ دیا ہو تو کیا وہ ختم ہو جائے گا؟
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ’سارا مسئلہ چیف جسٹس کے بطور چیئرمین ریفرنس ٹیک اپ نہ کرنے سے بنا ہے، ججز کے خلاف شکایت نمٹانا صرف چیئرمین کا نہیں بلکہ کونسل کا کام ہے، پچھلے دنوں بھی چیف جسٹس نے کہا کہ 100 سے زیادہ شکایت زیر التوا پڑی ہیں۔‘
اکرم شیخ نے کہا کہ ’جب کونسل اجلاس بلانا چیئرمین کا اختیار ہے تو ذمہ داری بھی چیئرمین پر ہے۔‘

سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس ریٹائرڈ مظاہر علی اکبر نقوی (دائیں) کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی ہے۔ (فوٹو: ایکس)

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے دو اہم نکات ہیں، ایک نکتہ یہ کہ ایک بار کونسل شکایت پر نوٹس کر چکی تو جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ سے ختم ہو جائے گی؟ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جج کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد نئے سرے سے ریفرنس ٹیک اپ ہوسکتا ہے؟
اس پر عدالتی معاون نے کہا کہ ’یہ نہیں ہو سکتا کہ جج ریٹائرڈ ہو جائے اور 10 برس بعد کوئی شکایت اٹھا کر اس کے خلاف کارروائی کر دی جائے۔‘
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ عافیہ شہربانو کیس جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کا جھگڑا نہیں ہے، عافیہ شہربانو کیس میں ایک جج کی ریٹائرمنٹ پر اس کے کے خلاف شکایت غیرمؤثر ہو جانے کا معاملہ اٹھایا گیا ہے، اب مدعا یہ ہے کہ جب کونسل شکایت غیر مؤثر قرار دے چکی تو کیا کیا جائے؟
عدالتی معاون اکرم شیخ نے کہا کہ کیس کے فریقین اور میرٹس پر بات نہیں کروں گا، بعدازاں اُن کے دلائل مکمل ہو گئے۔

’جج کے خلاف شکایت پر انکوائری تو لازم ہو گی‘

دوسرے عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا کہ جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفے کے ساتھ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی بے معنی ہو جاتی ہے، ضروری نہیں کہ کوئی جج اسی وجہ سے استعفیٰ دے کہ اس پر لگے الزامات سچ ہیں، جج اپنی تضحیک برداشت نہ کر سکنے پر بھی استعفی دے سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا جج کو اپنے استعفے کی وجوہات بیان نہیں کرنی چاہییں؟
خواجہ حارث نے کہا کہ اگر تو قانون جج کو استعفے پر وجوہات بتانے کا پابند بناتا ہے تو دینا لازم ہے، آرٹیکل 209 کا مقصد جج کو عہدے سے برطرف کرنا ہے، جب ایک جج عہدے پر ہے ہی نہیں تو کونسل کی کارروائی کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر جج ریٹائر یا مستعفی ہو چکا ہے تو کونسل صدر کو سفارش کیا کرے گی؟
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک دفعہ شروع کی گئی کارروائی کیا ایک دم سے ختم کر دیں؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا جج کو اپنے استعفے کی وجوہات بیان نہیں کرنی چاہییں؟ (فوٹو: اردو نیوز)

خواجہ حارث نے کہا کہ مثال کے طور پر 11 تاریخ کو جج استعفی دے جائے اور 12 تاریخ کو کونسل کارروائی کرے تو جج تو موجود ہی نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’آرٹیکل 209 شق 5 میں درج ہے کہ جج عہدے پر ہو یا نہ ہو کونسل کارروائی کرسکتی ہے، جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں صرف صدر کو سفارش والا حصہ ختم ہو جائے گا، جج کے خلاف شکایت پر انکوائری تو لازم ہو گی، نتیجہ کیا ہوگا یہ بعد میں دیکھا جائے گا، کیا جج نہیں چاہے گا کہ خود پر لگے الزامات سے بری ہو کر گھر جائے؟‘
دوسرے عدالتی معاون نے کہا کہ تعزیرات پاکستان کے تحت سزا یافتہ شخص انتقال کر جائے تو اس کی سزا ختم ہو جاتی ہے۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل فیصلہ کر لے کہ اس نے جج کے خلاف کارروائی کرنی ہے تو اسے کون روک سکتا ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ کونسل کو کارروائی سے روک سکتی ہے، سپریم کورٹ نے افتخار محمد چوہدری اور شوکت عزیز صدیقی کیس میں کونسل کو کارروائی سے روکا تھا، اگر کوئی جج جرم کرے تو عام قوانین کا نفاذ اس پر بھی ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر کوئی ایس ایچ او جج کے خلاف مقدمہ درج کرے گا تو کیا وہ جج آزادانہ فیصلہ دے سکے گا؟
اس دوران جسٹس مسرت ہلالی نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ آپ عدالتی معاون ہیں یا وکیل صفائی؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تمہت تو مجھ پر کوئی اور ہے مگر میں عدالتی معاون ہوں، ہمیشہ ایک ہی موقف رہا ہے کہ جو آئین و قانون میں درج ہے اس سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ بعدازاں ان کے بھی دلائل مکمل ہو گئے۔

’کونسل کے سامنے شکایت آ جائے تو اس پر کوئی نہ کوئی رائے دینا لازم ہے‘

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل میں کہا کہ ’دوران ملازمت مس کنڈکٹ پر جج کے خلاف کارروائی کرنا سپریم جوڈیشل کونسل کا ہی اختیار ہے، عدلیہ،عوام اور حکومت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتی ہے۔ عدلیہ بنیادی حقوق کی ضامن ہے اس لیے اسے آزاد ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی کے لیے ججز کا احتساب لازم ہے۔‘

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ یہ معاملہ سنہ 2019 کا ہے تو اٹارنی جنرل آفس نے پانچ برس تک کیوں کوئی ایکشن نہیں لیا؟ (فوٹو: اردو نیوز)

’اگر احتساب سے اجتناب برتا جائے تو اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی، عدلیہ کی آزادی کے لیے متحرک ہونا چاہیے، آرٹیکل 209 کے تحت ججز کے خلاف انکوائری کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے، ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ضروری نہیں کہ ان کی برطرفی کی سفارش کی جائے، اگر کوئی جج ذہنی بیماری میں مبتلا ہو تو اسکا علاج ممکن ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جن بیماریوں کا علاج ممکن ہے ان کی بنیاد پر کونسل جج کو کچھ عرصے کی رخصت دے سکتی ہے، ضروری نہیں برطرف کرے، وقت کی پابندی نہ کرنے پر جج کے خلاف شکایت ہو تو کونسل برطرفی کے بجائے تنبیہ کر سکتی ہے۔
’کونسل کے سامنے شکایت آ جائے تو اس پر کوئی نہ کوئی رائے دینا لازم ہے، جج ریٹائرمنٹ کے بعد چیف الیکشن کمشنر، شریعت کورٹ کے ججز یا ٹریبیونلز جیسے آئینی عہدوں پر مقرر ہوتے ہیں، ضروری ہے کہ جج کے اوپر لگے الزام پر کونسل اپنی رائے دے تاکہ آئینی عہدوں پر تعیناتی ہو سکے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کا احتساب ہونا چاہیے لیکن اس احتساب سے سپریم کورٹ کا وقار کم نہ ہو، ججز کے خلاف کارروائی کوئی اور ادارہ نہیں کر سکتا، جج کے خلاف کارروائی اس کے حاضر سروس ہونے کے دورانیے سے متعلق شکایت پر ہو سکتی ہے، عوامی اعتماد کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو شفافیت سے کام کرنا چاہیے۔
جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ مثال موجود ہے کہ ایک جج کے خلاف آرٹیکل 209 کی کارروائی شروع کی گئی اور ان کے استعفے پر ختم کر دی گئی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ یہ معاملہ سنہ 2019 کا ہے تو اٹارنی جنرل آفس نے پانچ برس تک کیوں کوئی ایکشن نہیں لیا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کسی جج کے خلاف کارروائی دوبارہ شروع کرنی ہے یا نہیں یہ فیصلہ کونسل کا ہو گا۔
بعدازاں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہو گئے۔ عدالت نے سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا جو بعد میں سنا دیا۔واضح رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ مظاہر علی اکبر نقوی نے جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف آڈیو لیک سکینڈل کی سنوائی پر استعفی دے دیا تھا۔ اس پر حکومت نے ان کے خلاف جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری رکھے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

شیئر: