Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن مستعفی

سپریم کورٹ کورٹ کے سینیئر جج جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے عہدے سے استعفیٰ  دے دیا ہے۔ 
جمعرات کی شام کو  جسٹس اعجازالاحسن نے اپنا تحریری استعفیٰ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھجوا دیا۔ 
صدر مملکت کو بھیجے گئے اپنے استعفے میں جسٹس اعجاز الاحسن نے لکھا ہے کہ ‘لاہور ہائی کورٹ کے جج، چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج کے طور پر کام کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ تاہم میں اب مزید سپریم کورٹ کے جج کے طور پر کام نہیں کرنا چاہتا ہوں، اس لیے میں آئین کے آرٹیکل 206 (1)  کے تحت بطور جج سپریم کورٹ فوری استعفی دے رہا ہوں۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن سنیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر تھے اور رواں سال اکتوبر میں چیف جسٹس بننے والے تھے۔ 
جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کی آج کی سماعت میں جسٹس اعجاز الاحسن شریک نہیں ہوئے تھے۔ 

خیال رہے کہ گذشتہ دنوں سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایات پر کارروائی کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر اکبر نقوی مستعفی ہو گئے تھے۔
منگل کو سپریم کورٹ نے جسٹس نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی روکنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
جسٹس اعجاز الاحسن کون ہیں؟
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن 1960 کے دوران مری میں پیدا ہوئے اور انھوں نے لاہور کے فارمن کرسچن کالج سے 1979  میں گریجویشن مکمل کر لی۔
پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کرنے کے بعد انھوں نے قانون کی پریکٹس شروع کی۔  جسٹس اعجاز الاحسن نے امریکہ کی کارنیل یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن کو 2009 میں لاہور ہائی کورٹ کا جج  تعینات کیا گیا۔ 2015 میں اعجاز الاحسن لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے اور 2016 میں انھیں سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن مشہور زمانہ پانامہ بینچ کا حصہ تھے جس نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اقامہ پر نااہل کیا تھا۔ جسٹس اعجاز پانامہ بینچ کے ان تین ججوں میں شامل تھے جس نے نواز شریف کے خلاف تحقیقات کے لیے انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ارکان پر مشتمل جی آئی ٹی بنائی۔
نواز شریف کے خلاف احتساب عدالتوں میں کیسز کی نگرانی کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس اعجاز کو مقرر کیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی اس پانچ رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے کو خلاف آئین قرار دیا تھا۔

شیئر: