Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اگر صدر قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس بلانے سے انکار کرے تو کیا ہوگا؟

ایوان صدر سے اس بارے میں مکمل خاموشی ہے اور ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس کب بلایا جائے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اطلاعات کے مطابق پاکستان کے صدر عارف علوی آٹھ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں وجود آنے والی قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کو اس بنیاد پر موخر کر رہے ہیں کہ اسمبلی کی تمام مخصوص نشستوں کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا اور اس لیے ایوان تاحال نامکمل ہے۔
 اتوار کے روز پاکستان مسلم لیگ نواز نے صدر پر الزام لگایا کہ انہوں نے وزارت پارلیمانی امور کی اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط نہیں کیے ہیں۔
دوسری طرف ایوان صدر سے اس بارے میں مکمل خاموشی ہے اور ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس کب بلایا جائے گا یا کیوں موخر کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق صدر پر لازم ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کے 21 روز بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے۔ آئین کی شق اڑتالیس کے مطابق صدر پر لازم ہے کہ وہ اسمبلی کا اجلاس بلانے کی تجویز پر عمل کرے اور اس کے پاس کوئی قانونی راستہ نہیں ہے کہ وہ اس عمل کو موخر کر سکے یا اس تجویز سے ہٹ جائے۔
آئینی امور کے ماہر سینیئر قانون دان حافظ احسان احمد نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ صدر اسمبلی کا اجلاس بلانے کی تجویز واپس نہیں بھیج سکتا اور آئین کا آرٹیکل 91 اس سلسلے میں صدر کو کوئی اختیار نہیں دیتا۔
حافظ احسان احمد کے مطابق اگر صدر اسمبلی کا اجلاس بلانے کی تجویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو پھر قومی اسمبلی کا سیکریٹری اجلاس بلانے اور اس کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا مجاز ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر کو یہ اجلاس بلانا ہی پڑے گا اور وہ اس کو موخر نہیں کر سکتے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صدر عارف علوی آئینی امور کی انجام دہی پر تنقید کی زد میں ہیں بلکہ اس سے پہلے انہوں نے 2022 میں اس وقت نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف سے بھی حلف لینے سے انکار کیا تھا جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے وہ نئے قائد ایوان منتخب ہوئے تھے۔
صدر علوی کے آئینی امور سے متعلق فیصلوں کے حوالے سے مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور ان کی اتحادی جماعتیں اکثر ان کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں اور انہیں صدر مملکت سے زیادہ پاکستان تحریک انصاف کا ورکر بننے کا طعنہ بھی دیتی رہی ہیں۔

شیئر: