ججز کا خط: کیا تصدق جیلانی کمیشن کے نتائج پر عمل درآمد ممکن ہوگا؟
ججز کا خط: کیا تصدق جیلانی کمیشن کے نتائج پر عمل درآمد ممکن ہوگا؟
ہفتہ 30 مارچ 2024 21:13
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
ٹی او آرز کے مطابق انکوائری کمیشن اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط میں لگائے گیے الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا۔ (فوٹو: ایکس)
وفاقی کابینہ نے سنیچر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے عدالتی امور میں مبینہ مداخلت پر لکھے گیے خط کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دے دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں وفاقی کابینہ نے سابق چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی کو انکوائری کمیشن کا سربراہ مقرر کیا ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’کابینہ اجلاس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا گیا جس کے بعد وفاقی کابینہ نے اس خط کے مندرجات کا جائزہ لینے اور ان کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن کی تشکیل کی منظوری دی۔ بیان کے مطابق سابق چیف جسٹس پاکستان جناب تصدق حسین جیلانی کو انکوائری کمیشن کا سربراہ نامزد کیا گیا ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کی شرائط یا ٹی او آرز( ٹرمز آف ریفرنس) کی بھی منظوری دی۔
ٹی او آرز کے مطابق انکوائری کمیشن اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط میں لگائے گیے الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ کیا یہ الزامات درست ہیں یا نہیں؟ بیان کے مطابق انکوائری کمیشن اس بات کا تعین بھی کرے گا کہ کیا کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا یا نہیں؟ یہ کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی ’ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے‘ کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا اور کمیشن کو یہ بھی اختیار ہو گا کہ وہ انکوائری کے دوران ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کر سکتا ہے۔
اس حوالے سے سینیئر تجزیہ کار وجاہت مسعود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جن ججز نے یہ خط لکھا ہے اُن کو اب اپنے دلائل اور ثبوتوں سے کمیشن کے سامنے اپنے الزامات کو ثابت کرنا ہو گا۔
’کمیشن کا دائرہ کار تو واضح ہے جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کا جائز لے گا جبکہ ججز لگائے گئے الزامات کو ثابت کریں گے۔ اگر الزامات درست ثابت ہوگئے تو ذمہ داران کو سزا دی جائے گی۔‘
اس حوالے سے سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ ٹرمز آف ریفرنس سے اختیارات واضح ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق ’ٹی او آرز اختیارات پر پابندی کے لیے نہیں بلکہ اختیارت کو واضح کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ عدالتیں حدود و قیود کی پابند ہوتی ہیں لیکن اس طرح کے کمیشنز کی نویت تفتیشی یا احتسابی ہوتی ہے۔‘
اشتر اوصاف نے کہا کہ ’کمیشن نے یہ نہیں دیکھنا ہوتا کہ کس نے کیا کہا اور کس کی کیا شکایت ہے؟ بلکہ یہ معاملہ کی تفتیش کرتا ہے۔ اس طرح کے کمیشن ’کیا کہا گیا‘ میں نہیں پھنستا بلکہ کیا کہا گیا؟ کس نے کہا؟ اس کے شواہد کیا ہیں؟ کیا اس طرح کی مزید باتیں ہوئیں؟ کب اور کس طرح ہوئیں؟ کمیشنز تشخیص کے لیے ہوتے ہیں جب تشخیص ٹھیک طرح سے ہو جاتی ہے تو مداوا ممکن ہوتا ہے۔‘
سابق اٹارنی جنرل پرامید ہیں کہ جسٹس (ر) تصدق جیلانی اس معاملے کو ’تیزی سے حل‘ کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں ملک کے حساس اداروں پر الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ پورا عمل حساس اداروں کے ہی مفاد میں ہو گا۔
’اگر حساس ادارے تعاون کریں تو یہ ملک کے مفاد میں بھی ہو گا۔ کیا عدالتیں حساس نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے حساس نہیِں ہیں؟ ان (ایجنسیوں) کی حساسیت الگ نہیں ہے بلکہ یہاں سکیورٹی کا اضافی حساس عنصر آ جاتا ہے اور یہ سکیورٹی پاکستان کی ہے۔ مجھے امید ہے تمام سکیورٹی ادارے اپنے سارے معاملات کو کھل کر بیان کریں گے۔‘
سینیئر تجزیہ کار وجاہت مسعود کے مطابق ’حساس اداروں کو حساس ہم کہتے ہیں لیکن وہ قانون سے بالاتر نہیں ہیں۔ اگر وہ ہماری عدالتی کارروائیوں میں مداخلت کریں گے تو اس کو روکا جانا چاہیے۔ جب کوئی ادارہ جوابدہ نہیں ہوتا تو وہاں کرپشن و دھونس اور بددیانتی کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے۔ اگر جوابدہی کی روایت قائم ہوجائے گی تو یہ انہی اداروں کے حق میں ہے۔‘
جسٹس (ر) تصدق جیلانی کمیشن کے حوالے سے مبصرین امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کیونکہ ان کے مطابق ماضی کی نظیروں سے نتائج برآمد ہونے کے حوالے ملتے ہیں۔
وجاہت مسعود نے پنجاب میں احمدی کمیونٹی کے خلاف فسادات پر بننے والے کمیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’سنہ 1953 میں ایک انکوائری کمیشن بنا تھا جسے منیر انکوائری رپورٹ بھی کہتے ہیں۔ یہ پاکستانی تاریخ کا واحد کمیشن تھا جس کی رپورٹ شائع بھی ہوئی اور اس کے نتیجے میں پنجاب کے وزیراعلٰی ممتاز دولتانہ نے الزامات ثابت ہونے پر عہدہ بھی چھوڑا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری تاریخ اس سے عاری ہے۔‘
’سنہ 2016 میں سپریم کورٹ نے کوئٹہ سول ہسپتال خودکش حملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا تھا جس کی سربراہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور ساتھ میں کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے اس واقعے اور کمیشن کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’سنہ 2016 میں کوئٹہ میں 56 کے قریب وکلا شہید ہوئے تھے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ دیا تھا اور اس کے بعد اُن پر کیا گزری وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔‘
وجاہت مسعود کی رائے میں کمیشنز کی جانب سے فیصلے دینے اور انکوائری کرنے کی روایت موجود ہے لیکن عمل درآمد کا انحصار حکومت پر ہوتا ہے۔
’عمل درآمد کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ حکومت وقت کتنی مضبوط ہے۔ اس حوالے سے میرا خیال ہے کہ اس وقت ملک میں جس طرح کی تقسیم ہے تو اس پر پردہ ڈالنا ممکن نہیں ہو گا۔ تصدق حسین جیلانی کے حوالے سے بھی میری رائے ہے کہ ان سے زیادہ غیرجانبدار اور اصول پسند حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججز میں شاید ہی کوئی ہو۔‘
سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف ماضی میں قائم ہونے والے کمیشنز اور ان کے نتائج سے متعلق بتاتے ہیں کہ ماضی میں جتنے بھی کمیشنز بیٹھے ہیں اور ان کی فائنڈنگز سفارشات کی حیثیت رکھتی ہیں۔
’ان سفارشات کی روشنی میں قانون سازی ہوتی رہی ہے۔ مثلاً ایک کمیشن کوآپریٹیو سوسائٹی سکینڈل کی انکوائری کے لیے بیٹھا تھا۔ اس کمیشن کی سفارشات پر قانون سازی کی گئی۔ اسی طرح جوزف کالونی کے حوالے سے کمیشن بنا۔ اس کی سفارشات پر گرفتاریاں ہوئیں۔ اسی طرح وفاقی حکومت نے 10 سال کے دوران بیرونی قرضوں کی تحقیقات کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھی معاملات سدھار کی طرف گئے۔‘