Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا کے انتخابات 2024: پی جے پی کی انتخابی مہم کے نمایاں پہلو کون سے ہیں؟

نریندر مودی کی حکومت نے خواتین کی حمایت کے حصول کے لیے ان کے لیے بعض فلاحی سکیمیں بھی متعارف کرائی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
رواں ماہ انڈیا کے لگ بھگ ایک ارب ووٹرز دنیا کے سب سے بڑے الیکشن میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے جا رہے ہیں۔
عوامی آراء پر مبنی سرویز انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیا جنتا پارٹی(پی جے پی) کی مسلسل تیسری مرتبہ بھاری فتح کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں 19 اپریل سے یکم جون تک سات مرحلوں میں منعقد ہونے والے اس الیکشن سے جڑے نمایاں پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ان انتخابات میں پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد چار جون کو ووٹوں کی گنتی ہو گی۔
معاشی ترقی اور مہنگائی
توقع کی جا رہی ہے کہ انڈیا کی معیشت گزشتہ مالی سال کی نسبت رواں برس آٹھ فیصد ترقی کرے گی اور یوں یہ تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شمار ہو گا۔
گزشتہ ایک دہائی میں نریندر مودی کی قیادت میں انڈیا معاشی اشاریوں میں کئی درجے اوپر اٹھ کر دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بنا ہے۔ اس الیکشن مہم کے دوران نریندر مودی انڈیا کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں انڈیا میں مہنگائی میں اضافہ دیکھا گیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب انڈیا میں مہنگائی بھی ایک چیلنج ہے۔ سنہ 2022/23 میں پرچون کے نرخوں میں چھ اعشاریہ سات فیصد اضافہ ہوا کہ جو کہ اس سے پہلے کے دو برس میں پانچ اعشاریہ پانچ اور اس سے قبل چھ اعشاریہ دو فیصڈ تھا۔
فلاحی پالیسیاں
انڈیا میں 2019 کی کورونا وبا کے بعد سے حکومت ایک ارب 42 کروڑ کی آبادی میں سے 81 کروڑ 14 لاکھ افراد کو مفت راشن  مہیا کر رہی ہے جس کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ یہ ملکی شرح نمو کے غیرمستحکم ہونے کی علامت ہے۔
ورلڈ اِن ایکولیٹی لیب کی تحقیق کے مطابق گزشتہ برس کے آخر میں انڈیا کے امیر ترین افراد اس کی کل دولت کے 40 اعشاریہ ایک فیصد کے مالک تھے جو کہ 1961 کے بعد سب سے بلند شرح ہے۔ ان امیر ترین افراد کا ملک کی کل آمدن میں حصہ 22 اعشاریہ چھ فیصد رہا۔
نریندر مودی کی حکومت نے خواتین کی حمایت کے حصول کے لیے ان کے لیے بعض فلاحی سکیمیں بھی متعارف کرائی ہیں۔
ہندتوا کا احیاء
جنوری میں وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کرنے کے بی جے پی کے 35 برس قبل کیے گئے وعدے کی تکمیل بھی کی۔ اس مندر کا افتتاح اس جگہ پر کیا گیا جہاں 1992 میں ہندو پرتشدد ہجوم نے حملہ کر کے 19ویں صدی میں تعمیر ہونے والی بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔
اس دوران انڈیا کے مسلمانوں کی جانب سے حکومت پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ان کے خلاف پالسیاں تشکیل دے رہی ہے۔
بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ سب کے لیے بلا تفریق کام کر رہے ہیں۔

انڈیا کے مسلمانوں کی جانب سے حکومت پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ ان کے خلاف پالسیاں تشکیل دے رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

نریندر مودی کی حکومت نے مسلم سکولز اور مدرسوں کے لیے مرکزی کی حکومت کی مالی امداد کا سلسلہ بھی ختم کیا ہے اور بی جے پی کے تحت آنے والی ریاستوں میں کئی مسلم  تعلیم گاہوں کو بند بھی کیا گیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل مودی سرکار نے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی ہندو، پارسی، سکھ، بدھ مت، جین مت اور مسیحی کمیونیٹیز کے لیے شہریت کا ایک قانون بھی منظور کیا ہے جسے انڈین مسلمان اپنے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں۔
کرپشن
انڈیا میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والی ایک سرکاری ایجنسی نے گزشتہ ایک دہائی میں اپوزیشن کے تقریباً 150 سیاست دانوں کو طلب کیا اور پوچھ گچھ کی، ان پر چھاپے مارے یا انہیں گرفتار کیا۔
اسی عرصے میں اس ایجنسی نے حکمراں جماعت بی جے پی کے تقریباً نصف درجن سیاست دانوں کے خلاف بھی تحقیقات کی ہیں۔
ان کارروائیوں میں سب سے نمایاں دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری ہے، جن کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی۔

کرپشن کے خلاف  کارروائیوں میں سب سے نمایاں دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

نریندر مودی کا کہنا ہے کہ ایجنسیاں بدعنوانی پر ان کی ’زیرو ٹالرینس‘ پالیسی کے تحت کسی سے بھی تفتیش کرنے کے لیے آزاد ہیں۔
اپوزیشن کے سیاست دانوں نے مودی پر الزام لگایا ہے کہ وہ سیاسی فائدے کے لیے سرکاری ایجنسیوں کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
بے روزگاری
نریندر مودی پہلی مرتبہ 2014 میں ملک کے نوجوانوں کو لاکھوں ملازمتیں دینے کے وعدے پر اقتدار میں آئے تھے لیکن وہ اس میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں۔
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق فروری میں بے روزگاری کی شرح آٹھ فیصد تک بڑھ گئی۔
دوسری جانب حکومتی اندازوں کے مطابق مارچ 2023 کو ختم ہونے والے مالی سال میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر پانچ اعشاری چار فیصد ہو گئی جو نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے 2013/14 میں چار اعشاریہ نو فیصد تھی۔

رواں برس فروری میں انڈیا میں بے روزگاری کی شرح آٹھ فیصد تک بڑھ گئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 15 سے 29 برس کی عمر کے تقریباً 16 فیصد شہری نوجوان 2022/23 میں ناقص مہارت اور معیاری ملازمتوں کی کمی کی وجہ سے بے روزگار رہے جبکہ پرائیوٹ ایجنسیوں کے اندازے اس سے کہیں زیادہ ہیں۔
کسانوں کا مسئلہ
بی جے پی نے گزشتہ انتخابات کے لیے اپنے منشور میں 2022 تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس وعدے پر عمل نہیں ہو سکا،
شمالی ریاست پنجاب کے کسانوں کے احتجاج نے 2021 میں نریندر مودی کو اصلاحات کے تین قوانین واپس لینے پر مجبور کیا تھا۔

انڈیا میں پنجاب کے کسانوں نے مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

رواں برس کسانوں نے ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر اپنی پیداوار کی مناسب قیمتوں کا مطالبہ کیا تھا حالانکہ یہ احتجاج ہفتوں کے اندر ہی ختم ہو گیا تھا۔
انڈیا کا ’عالمی امیج‘
بی جے پی اکثر نریندر مودی کی کامیابی کے طور پر انڈیا کی بڑھتی ہوئی عالمی حیثیت کو اجاگر کرتی ہے جس کی پشت پر اس کی معیشت ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ برس جی 20 سربراہی اجلاس کی میزبانی اور روس کے حملے کے بعد یوکرین میں پھنسے اپنے شہریوں کے کامیاب انخلاء کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

شیئر: