Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک سال کے بعد چوہدری پرویز الٰہی کی رہائی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے؟

چوہدری پرویز الٰہی ایک سال کی جیل کاٹنے کے بعد منگل کو رہا ہوئے تھے (فائل فوٹو: پرویز الٰہی ایکس اکاؤنٹ)
پاکستان تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الٰہی ایک سال کی جیل یاترا کے بعد تقریباً ڈرامائی انداز میں رہا ہو کر اپنے گھر پہنچ چکے ہیں۔
اُن پر جو آخری مقدمہ چل رہا تھا وہ پنجاب اسمبلی میں غیر قانونی بھرتیوں کے عوض رشوت لینے کے الزامات کے تحت تھا۔ یہ مقدمہ پنجاب کے محکمہ اینٹی کرپشن کی جانب سے بنایا گیا تھا جس میں بالآخر اُن کی ضمانت ہوگئی۔
 بیس مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے اُن کی ضمانت منظور کی اور اُنہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔ اس مرتبہ اُن کی رہائی کے بعد نہ تو انہیں کسی اور مقدمے میں گرفتار کیا گیا اور نہ ہی اُن کی رہائی میں تاخیر کی گئی۔ 
اُدھر عدالت کا حکم تحریری طور پر جاری ہوا تو اِدھر کوٹ لکھپت جیل کے دروازے اُن کی رہائی کے لیے کھول دیے گئے۔
یوں چوہدری پرویز الٰہی ایک سال سے تین دن کم کی جیل کاٹنے کے بعد اپنے گھر لوٹ آئے ہیں۔ اس صورتِ حال پر مبصرین کئی سوالات اُٹھا رہے ہیں۔ 
پہلا سوال یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کی رہائی جب ’مطلوب‘ نہیں تھی تو ایک کیس میں ضمانت کے بعد اُن کو دوسٖرے کیس میں گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ 
اس مرتبہ بھی جب اُن کی ہائی کورٹ میں ضمانت ہوئی تو پولیس نے عدالت کو بتایا کہ پرویز الٰہی کو 9 مئی کے 20 مقدمات میں نامزد کیا گیا ہے۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی تحریک انصاف کی قیادت میں وہ واحد رہنما ہیں جن کی گرفتاری 9 مئی کے مقدمات میں نہیں ہوئی۔ 
دوسرا سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ اُن کی رہائی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسٹیبلشمنٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج آمنے سامنے ہیں اور تحریک انصاف کے روپوش رہنما حماد اظہر بھی ایک سال کے بعد منظرعام پر آگئے ہیں تو کیا پسِ پردہ کچھ چل رہا ہے اور چوہدری پرویز الٰہی کسی ڈیل کے نتیجے میں رہا ہوئے ہیں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اُن کے وکیل عامر سعید راں جو پرویز الٰہی کے ہر مقدمے میں اُن کے دفاع میں پیش ہوئے اور اُن کے بہت قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہیں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کسی بھی ڈیل سے انکار کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’بالکل وہ (پرویز الٰہی) کسی ڈیل کے نتیجے میں رہا نہیں ہوئے۔ جس مقدمے میں اُن کو گرفتار کیا گیا تھا اس میں محکمہ اینٹی کرپشن کے پاس اُن پر لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ایک بھی ثبوت نہیں تھا، اور یہ اُن کا آخری مقدمہ تھا جس میں اُن کو گرفتار کیا گیا تھا۔‘

پرویز الٰہی پی ٹی آئی کی قیادت میں واحد رہنما ہیں جن کی گرفتاری 9 مئی کے مقدمات میں نہیں ہوئی (فائل فوٹو: روئٹرز)

خیال رہے کہ مئی 2023 سے لے کر اب تک چوہدری پرویز الٰہی کو کل 17 مقدمات میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے چھ مقدمات ایسے ہیں جن میں عدالتوں نے ایف آئی آر ہی سرے سے خارج کر دیں۔
تاہم 11 مقدمات میں چوہدری پرویز الٰہی کی ضمانتیں منظور ہوئیں۔ ان کے خلاف چار مقدمے ایف آئی اے جبکہ ایک مقدمہ دہشت گردی کے الزامات کے تحت درج کیا گیا، تاہم اس کیس کا تعلق 9 مئی سے نہیں تھا۔
جب عامر سعید راں سے یہ پوچھا گیا کہ پولیس نے سابق وزیراعلٰی پنجاب کو 9 مئی کے مقدمات میں نامزد تو کر دیا ہے لیکن ان کی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی؟ 
اِس پر ان کا کہنا تھا کہ ’جب عدالت کے سامنے یہ بتایا گیا کہ وہ نو مئی کے مقدمات میں نامزد ہیں تو عدالت نے پوچھا کہ اس کے ثبوت سامنے لائے جائیں جس پر اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی ایک طویل قانونی جنگ کے بعد باہر نکلے ہیں۔‘
دوسری طرف پنجاب کے پراسیکیوٹر جنرل فرہاد علی شاہ کہتے ہیں کہ ’پولیس نے اگر مقدمات میں نامزد کیا ہے تو اُن کو گرفتار بھی پولیس نے کرنا تھا اور ریمانڈ کے لیے جب کیس عدالت جاتا ہے تو اس کے بعد پراسیکیوشن کا کام شروع ہوتا ہے۔‘
’البتہ ہائی کورٹ میں ہم نے چوہدری پرویز الٰہی کی ضمانت کی بھرپور مخالفت کی ہے اور پراسکیوشن نے اپنا کیس بھی پیش کیا، تاہم عدالت نے اُن کی ضمانت لے لی ہے تو اب یہی حکم چلے گا۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ’اب پی ٹی آئی کی قیادت وکلا سے سیاسی لیڈرشپ کی طرف منتقل ہو رہی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

روایت کے برعکس چوہدری پرویز الٰہی کی بغیر رکاوٹ رہائی پر تجزیہ کار افتخار احمد کا کہنا ہے کہ ’چوہدری پرویز الٰہی کی رہائی کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا بتایا جا رہا ہے۔‘
’بغیر کسی ثبوت کے اسے ڈیل بھی نہیں کہا جا سکتا، تاہم یہ رہائی علامتی طور پر اہم ہے۔ تحریک انصاف نے اُن کی رہائی پر خوشیاں منائی ہیں اور وہ اُنہیں ایک ہیرو کی طرح دیکھ رہی ہے۔‘
اُن کے مطابق ’اگر پرانا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے اور واقعاتی شہادتوں پر نظر دوڑائی جائے تو چوہدری پرویز الٰہی کی رہائی محض اتفاقیہ معلوم نہیں ہوتی۔‘
اسی طرح تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’پرویز الٰہی نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی ہے اور پہلی مرتبہ انہیں اتنے طویل عرصے کے لیے جیل جانا پڑا۔ اس میں اُن کے بیٹے مونس الٰہی کی طرز سیاست کا بڑا ہاتھ ہے۔‘
’ڈیل ہوئی یا نہیں اس پر میں آن ریکارڈ کچھ نہیں کہوں گا، البتہ یہ ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ حماد اظہر کا یہ کہنا کہ قیادت نے تمام روپوش لیڈروں کو باہر آںے کی ہدایت کی ہے اور ایک دن پہلے پرویز الٰہی کی بغیر کسی مزید ڈرامے کے رہائی بہت سارے سوالات اور جوابات اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے۔‘
 سلمان غنی کے مطابق ’ایک تو لگ رہا ہے کہ اب تحریک انصاف کی قیادت وکلا سے سیاسی لیڈرشپ کی طرف منتقل ہو رہی ہے اور دوسرا اب پرویز الٰہی اپنی بگڑی بنانے کے لیے اپنے پُرانے حربے استعمال کر سکتے ہیں جس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہی ہو گا، اگلا منظرنامہ خاصا دلچسپ لگ رہا ہے۔‘
یاد رہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اپنی زندگی کی سب سے طویل جیل کاٹ کر رہا ہوئے ہیں اور اسیری کے دوران انہیں لاہور کی کیمپ جیل، اڈیالہ جیل راولپنڈی اور کوٹ لکھپت جیل لاہور میں رکھا گیا۔
سابق وزیراعلٰی پنجاب کو پے درپے 17 مقدمات میں گرفتار کیا گیا اور ان 17 مقدمات میں عدالتوں نے انہیں ضمانت پر رہا کیا۔

شیئر: