Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سائفر کیس صفر ہونے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اجمل جامی کا کالم

اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو سائفر کیس میں بری کرنے کا حکم دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
گزرے ہفتے خاکسار نے ’ہواؤں کے رخ بدلے بدلے سے ہیں‘ کے عنوان سے کالم باندھا تو احباب کے علاوہ متعلقہ ترین حلقوں سے بھی فون آیا کہ قبلہ آپ کن ہواؤں کے دوش پر مخاطب ہیں؟ ہوائیں نہیں بدل رہیں، سسٹم اپنی پوری طاقت کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے۔ شانتی بنائے رکھیں۔ ہم چپ سے ہو کر رہ گئے کہ بظاہر دستیاب اشاریے تو کچھ ایسی ہی جانکاری دے رہے تھے۔
عدلیہ کے ہاں سے اٹھنے والی انگڑائی اب بھرپور کروٹ لے چکی اور اس کا تازہ ترین ثبوت سائفر کیس کا صفر ہونا ہے۔ پراسکیوشن بنیادی مدعا ہی ایڈریس نہ کر سکی، وہ سائفر جس کا مدعا زیر بحث تھا وہی پیش نہ ہوا، گم ہونا یا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہے یا نہیں یہ معاملہ بعد کا تھا۔
فقط اعظم خان کی گواہی کی بنیاد پر استغاثہ اپنا پرچہ ثابت نہ کر سکا اور یوں دس دس سال کی قید سے قبلہ شاہ صاحب اور جناب کپتان باعزت بری قرار پائے۔
فیصلہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سنایا۔ یہ وہی جسٹس عامر فاروق ہیں جن کے بارے ماضی قریب میں اہلیان تحریک انصاف جو رائے رکھتے تھے وہ یہاں بیان کرنے کی سکت خاکسار کا قلم ہرگز ہرگز نہیں رکھتا۔ اب بہر حال وہ پی ٹی آئی کے لیے عمدہ ترین منصف قرار پائیں گے۔
جیل بیٹھا قیدی نمبر 804 عجب قسمت لے کر پیدا ہوا ہے، بھلا جیل بیٹھ کر بھی کوئی اپنا نقش یوں جما سکا جس کا پرچار کپتان کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں؟
وہ سائفر جس کی بنیا د پر کہا جاتا تھا کہ جناب باقی کیسز چھوڑیں یہ اصل پرچہ ہے جس کی بنیاد پر کم ازکم دس سال کی قید ہو گی اور یوں کپتان اور قبلہ قریشی کا پروگرام ختم شد ہوجائے گا۔ ٹی وی چینلز پر سرکاری نمائندگی کرنے والے سیاستدان اور کچھ قانون دان مسلسل اس کیس کی سنجیدگی سے اہل صحافت کو خبردار کیا کرتے تھے۔ مگر اب سسٹم کی کپتان پر سب سے بڑی چارج شیٹ یعنی سائفر کیس کی کہانی کم از کم اس عدالت کے فیصلے کے بعد صفر ہو چکی ہے۔ تھکی ہاری بدن بولی کیساتھ حکومتی رہنماؤں کی پریس کانفرنسیں اس کیس میں ان کی شکست کا اعتراف ہے۔

سائفر کیس کا ٹرائل اڈیالہ جیل میں شروع ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس سے پہلے خان کے خلاف توشہ خانہ، خانہ پُری ثابت ہوا۔ ایک سو نوے ملین کا کیس ٹکے ٹوکری ہوا، ٹیریان وائٹ کا کیس الزام کی سٹیج پر ہی بے جان ہو چکا، اور اب وہ سائفر میں بھی بے گناہ  قرار پاتے ہوئے بری ٹھہرے، لیکن پھر بھی وہ اڈیالہ کیوں ہیں؟ تو عرض ہے کہ اب وہ جیل میں شادی کرنے کے جرم میں ہیں۔ شادی جو عدت میں کی گئی۔ عدت کیس کے جج صاحب بدل چکے، نیا ٹرائل ہو گا، اور یوں یہ کیس چند ہفتے مزید لمبا کھینچے جانے کے اشارے ہیں اس بیچ پنجاب سرکار اور وفاق بھی ان کے خلاف غداری اور اس سے ملتے جلتے مقدمات دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
رہ گئی کہانی قبلہ شاہ صاحب کی تو وہ بھی سائفر سے بری ہونے کے باوجود ابھی اندر ہی رہیں گے کیونکہ 26 مئی کو ان کے خلاف 9 مئی کے تناظر میں آٹھ کیسز لگ چکے، جے آئی ٹی جیل جا کر انہیں شامل تفتیش کر چکی۔
اب کپتان اور قبلہ قریشی کتنا عرصہ اندر رہتے ہیں یہ کہانی قدرے بے جان ثابت ہو گی کیونکہ سب سے اہم اور بظاہر مضبوط کیس یعنی سائفر کا پرچہ بے سود ثابت ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی اخلاقی پوزیشن  کہیں زیادہ مضبوط ہو گی اور آنے والے کیسز پر بھی اثر ڈالے گی کیونکہ عدالتی انگڑائی اب طاقتور لہر بن چکی ہے۔
اسی لہر کے آگے پل باندھنے کی نئی منصوبہ بندی کے فی الحال آثار دکھائی نہیں دیتے، بیک ڈور چینلز پر بھی حرکیات سود مند ثابت نہیں ہو پا رہیں۔ اسلام آباد کی تین سیٹوں پر فارم 45 اور 47 کی کہانی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے اور جواب میں طارق فضل چوہدری و ہمنوا الیکشن کمیشن جا پہنچے ہیں کہ ٹریبونلز کو روکیں یہ جلد بازی میں فیصلے کر رہے ہیں۔ آثار بتلاتے ہیں کہ یہ تین سیٹیں بھی ن لیگ کے لیے خطرے میں ہیں۔

اسلام ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس کا فیصلہ سنایا۔ (فوٹو: آئی ایچ سی)

تو ایسے میں لہر کے آگے بند باندھنے کی سعی فی الحال کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ لہر اب موج بن رہی ہے اور موج بند باندھنے سے نہیں رکا کرتی۔
جیل بیٹھا کپتان البتہ سسٹم کو مسلسل بیک فٹ پر دھکیلنا چاہ رہا ہے اور رد عمل کے طور پر سسٹم سے بڑی غلطی سر زد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ حمود الرحمان رپورٹ پر ان کی سوشل میڈیا مہم  پر مقتدرہ شدید غم و غصے کا شکار ہے۔ 9 مئی ہو یا یہ حالیہ سوشل میڈیا مہم، سرکار ان دو مدعوں پر  کمپرومائز کرنے  کو تیار نہیں۔ ڈائیلاگ  کی فلم نشر ہونے سے پہلے ہی ڈبہ ثابت ہو چکی۔ ایسے میں مقبولیت اور عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر کپتان کب تک سسٹم کو بیک فٹ پر دھکیل سکتے ہیں اور سسٹم جواب میں اپنی بقا کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے؟ یہ اہم ترین سوال ہوں گے۔
لیکن بقا کی اس جنگ میں سسٹم کیا وہ غلطی سر زد کرے گا جس کا انتظار عمران خان کو ہے؟
بقول حضرت اقبال:
گُماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مُغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ درِ رگ تاک است

شیئر: