Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

استنبول، کابل، نائیجیریا، قاہرہ: رسیلے ذائقوں کی کہانی

ترک ریستوران میں کباب بہت سلیقے سے سرو کیے جاتے ہیں۔ فائل فوٹو
 بڑی عید کے تین دن گزر چکے ہیں، مسلم دنیا میں قربانی اور اس کے گوشت کے حوالے سے یہ دن اہم ہیں۔ سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی پوسٹیں دیکھیں جن میں لوگوں نے اپنی پسندیدہ گوشت والی ڈشز کا تذکرہ کیا یا کچھ نے ان کی ریسیپی بھی شیئر کی۔ ہر جگہ، ہر خطے کی اپنی مخصوص اور فیورٹ ڈشز ہیں۔ جن چند ممالک میں میرا جانا ہوا، وہاں کی گوشت والی ڈشز یاد آئیں۔
 استنبول، ترکی: شہر کا ایک منفرد ریستوران۔ ہلکی ہلکی بارش میں ہم چارپانچ پاکستانی صحافی وہاں پہنچے۔ مجیب الرحمن شامی، عطا الحق قاسمی، ٹی وی اینکرعبدالروف، کالم نگار روف طاہر مرحوم بھی تھے۔ یہ دس بارہ سال پہلے کی بات ہے۔ میزبان شعبہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر حلیل طوقار تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ریستوران خاص ساحلی علاقے کی ڈشز کے حوالے سے مشہور ہے۔ ترکی میں کھانے سے پہلے انواع واقسام کے سلاد آ جاتے ہیں۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ویٹر بہت بڑا تھال ہاتھ میں لیے گھوم رہا تھا، اس میں درجنوں اقسام کے سلاد تھے۔ کھانے میں خاص آئٹم یہ تھا کہ ایک طویل نیزہ نما سیخ پر کباب آیا۔ بلامبالغہ وہ پانچ فٹ طویل ہوگا۔ ویٹروں نے اسے یوں سلیقے کے ساتھ میز پر قطار میں بچھی کئی ٹرے ٹائپ چیزوں کے اوپر رکھ کر کباب اتارا کہ وہ کہیں سے نہ ٹوٹا۔
 ہم لوگ حیرت سے اپنے سامنے رکھے پانچ فٹ طویل اور دو انچ موٹے کباب کو دیکھ رہے تھے۔ خیر میزبان کے کہنے پر چھری سے کباب کے ٹکڑے کر کے اپنی پلیٹ میں ڈالے، ایسا خستہ، نرم اور رسیلا گوشت کہ منہ میں پانی بھر آئے۔ کباب کی خاص بات تھی کہ وہ اندر سے کاجو، پستے کی گریوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایسے مزیدار بیف کباب زندگی میں پہلی بار کھائے۔ ایک اور چیز مزے کی لگی، مگر اب پاکستان میں بھی اس کا رواج ہو گیا ہے۔ ایک بڑی سی طشتری میں بھڑکتی آگ میں رکھی بڑی سی پلاسٹر آف پیرس کی طرح کی کوئی چیز تھی جسے ویٹرنے باقاعدہ چھینی اور ہتھوڑے کی مدد سے توڑا۔ ٹکڑے الگ ہوئے تو اندر سے روسٹ ہوئی خوشبودار مسلم مرغی نکل آئی۔ چکن روسٹ، کمال کا ذائقے دار۔
اسی دورے میں ایک اور تجربہ ہوا۔ ایک محلے میں ہماری دعوت تھی، میزبان ایک سکالر تھے۔ مڈل کلاس گھرانا، فرشی نشست تھی۔ کھانے کا وقت ہوا، میزبان نے دیوار کے ساتھ لگی گول میز اٹھائی اور اسے درمیان میں بچھا دیا، اس کے نیچے ایک فٹ اونچے پائے لگے تھے ۔ ہمارے ہاں پٹھان یا قبائلی علاقوں میں فرشی نشست پر کھانے کا عام رواج ہے، نیچے دسترخوان بچھا دیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ رہتا ہے کہ کھانے والے کو جھک کر نیچے سے چیز اٹھا اٹھا کر کھانا پڑتی ہے۔
وہاں پہلی بار مشہور عرب ڈش مقلوبہ کھائی، بعد میں پتہ چلا کہ یہ فلسطینیوں میں مقبول ہے اور اکثر گھرانے ہر جمعہ کو اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ گوشت کے ساتھ پکائے چاول ہیں، جس میں آلو وغیرہ بھی ڈلتے ہیں۔ بڑے سے پتیلے نما برتن میں یہ بنتے ہیں اور شائد گوشت (چکن، مٹن ، بیف وغیرہ)کی تہہ نیچے لگائی جاتی ہے، اوپر چاول، آلووغیرہ ۔ مقلوبہ کا مطلب ہے الٹایا گیا۔ اس ڈش کو مقلوبہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس پتیلے کو بڑے سے تھال پر الٹ دیا جاتا ہے ۔ یوں جو گوشت نیچے تھا، وہ اوپر آ جاتا ہے۔ ساتھ دہی، سلاد وغیرہ اور کئی قسم کا زیتون بھی ہوتا ہے۔ ہمیں تو یہ بہت مزے دار لگا۔
کابل، افغانستان : یہ سابق صدر حامد کرزئی کا دور تھا، پاک افغان میڈیا کے ایک انٹرایکشن پروگرام میں کابل جانا ہوا، وہاں تین چار دنوں میں ایسے ایسے گوشت کے کھانے کھائے کہ ہوش اڑ گئے۔ میں گوشت کا شوقین ہوں، مگر اندازہ نہیں تھا کہ صبح، دوپہر ، شام کو گوشت ملے گا ۔ ہوٹل کے ناشتے میں آٹھ دس گوشت کی ڈشز تھیں،بھنے ہوئے گوشت سے لے کر ، تلے ہوئے پارچے، نمکین گوشت،بھنی کلیجی وغیرہ اور نجانے کیا کیا۔ دوپہر کو جہاں دعوت تھی، اس میں دنبہ کڑھائی، دم پخت، روش وغیرہ کے ساتھ بیف پلاﺅ ۔ رات کو بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ۔ اگلے دن ہوٹل کے ناشتے میں کچھ نئی گوشت والی ڈشز، دوپہراور رات کو کھانے میں پھر مختلف اقسام کے کڑھائی گوشت،دوپیازہ، کباب وغیرہ۔ ہر جگہ ساتھ تندور کی ٹھنڈی روٹی ہوتی۔
چوتھے دن پاکستانی سفارت خانہ میں سفیر نے ہمیں کھانے پر بلایا۔ وہاں پر یہ دیکھ کرحیرت ہوئی کہ( پاکستانی اعتبار سے) کچھ خاص اہتمام نہیں ۔ مٹرپلاﺅ، چنے کی دال، سادہ آلو اور بھنڈی وغیرہ بنی ہوئی۔ کھانا شروع ہوا تو پاکستانی صحافی ان چیزوں پر ٹوٹ پڑے، بمشکل چند منٹوں میں چنے کی دال کے ڈونگے خالی ہو گئے، مٹر پلاﺅ بھی دیوانہ وار ذوق شوق سے کھایا گیا، بھنڈی بھی۔ دراصل سب گوشت کھا کرسبزی اور دال کی شدید ضرورت محسوس کر رہے تھے۔ بعد میں سفارتی عملہ نے بتایا کہ انہیں اندازہ تھا کہ یہ ہر جگہ تین وقت گوشت کھا کر اکتا چکے ہوں گے، اس لیے دانستہ چنے کی دال، مٹر پلاﺅ اور سبزیاں بنائی گئیں۔
قدونہ، نائیجیریا۔ قدونہ افریقہ کی مشہور ریاست (صوبہ) ہے۔ افریقی کھانوں میں شائد کچھ مخصوص آئل استعمال ہوتا ہے یا پھر مسالہ جات ایسے ہیں کہ ہمیں ان کی مہک کچھ مختلف اور عجیب سی لگتی، مقامی لوگ مگر بڑے ذوق شوق سے انہیں کھانے میں لگے ہوتے۔ ایک ڈش ٹوفو اچھی لگی، مقامی نایئجیرین بتانے لگے کہ یہ ہماری وی آئی پی ڈش سمجھ لیں۔
ایک ڈش تھی جس میں پلیٹ کی ایک سائیڈ پر چاول کی چوکور ہموار ڈھیری لگی ہوتی جیسے کسی ٹفن کے پیالے کو الٹ دیا گیا ہو۔ چاول بھی موٹے اور چھوٹے ہوتے، دور سے لگے جیسے بڑے سائز کی دال ماش ہے۔ ہمارے والے باسمتی چاول کی جھلک باہر شاید ہی کسی ملک میں نظر آئے۔ خیر اس چاول پر گوشت کا شوربہ سا انڈیل دیا جاتا اور پھر مقامی لوگ تو اسے ہاتھ سے کھاتے، مٹھی بھر بھر کر منہ میں ڈالتے اور چسکے لیتے۔ ہم لوگ چمچ استعمال کر لیتے۔ وہاں ہماری طرح کی سلائس والی ڈبل روٹی کا رواج نہیں تھا، اس کے بجائے لمبے برگر بن ٹائپ بریڈ استعمال ہوتی۔اس بریڈ کے ساتھ بھی سالن کھا لیا جاتا۔ 
دوسی شہر میں آئی کیمپ کے دوران باہر گیارہ بجے اور چار پانچ بجے سہہ پہر کی چائے کا انتظام ہوتا، مختلف سائز اور سٹائل کے سینڈوچز ، بسکٹ وغیرہ کے ساتھ ایک بڑا سا تھال تھا ، جس میں براﺅن سے رنگ کا پاﺅڈر تھا۔ اس کا ایک چمچ بھر کر منہ میں ڈالا تو پتہ چلا کہ وہ سوکھے ہوئے گوشت کو پیس کر بنایا گیا۔ معلوم ہوا کہ وہاں پر گوشت نمک مرچ لگا کر رسی پر ڈال کر سکھایا جاتا ہے۔ اس خشک گوشت کو بعد میں سنبھال کر رکھ لیتے ہیں اور کسی خاص موقع پر ان خشک بوٹیوں کو گرائنڈر میں یا شائد ویسے ہی کوٹ کر پیس لیا جاتا ہے۔ مجھے تو وہ بہت مزے دار لگا۔ ہمارے پاکستانی سرجن اندر آنکھوں کے آپریشن کرنے میں لگے ہوتے اور آپ کا بھائی چمچ بھر بھر کر منہ میں ڈالتا رہتا۔ الحمداللہ وہ پاﺅڈر کلو میں نہیں بلکہ دھڑی (پانچ کلو)کے حساب سے تھا تو یہ بے رحمانہ خردبرد کسی نے نوٹ ہی نہ کی۔
قاہرہ، مصر: اسی نائیجریا کے سفر سے واپسی میں قاہرہ قیام کیا۔ جاتے ہوئے بھی چند گھنٹوں کا سٹے ملا تو ہم نے اہرام مصر نمٹا لیے تھے، واپسی کے سفر میں قاہرہ کا مشہور میوزم اور فرعون کی ممی دیکھنے کا موقعہ ملا، شہر کا پرانا مشہور قلعہ (سیتادل) بھی دیکھا۔ قاہرہ سے دو گھنٹے کے سفر پر واقعہ مشہور شہر سکندریہ (الیگزینڈریہ) بھی دیکھا جس کی لائبریری دیکھنا ایک شاندار تجربہ تھا۔ ہم ٹرین سے سکندریہ گئے تھے، وہ سفر بھی خوبصورت اور یادگار تھا، راستے میں شائے بدون حلیب (دودھ کے بغیر چائے ) پی۔ ٹی بیگ والا قہوہ سمجھ لیں مگر وہ گرین ٹی نہیں بلکہ ذائقے کے اعتبار سے دودھ کے بغیر والے بلیک چائے کے قہوہ اور گرین ٹی قہوہ کے درمیان کی کوئی چیز تھی، یعنی اس میں گرین ٹی کی طرح کا ہلکا پن بھی نہیں تھا اور کالی چائے کے قہوے والی تلخی بھی نہیں۔ تاہم عرب سٹائل کی شائے بدون حلیب والی ٹی بیگ کی وہ ورائٹی پاکستان میں دستیاب نہیں۔

افریقی کھانوں میں ایک خاص مہک ہوتی ہے جو ایشیائی کھانوں میں نہیں۔ فائل فوٹو

قاہرہ کے ایک روایتی بازار میں دریائے نیل کی مشہور مچھلی کھانے گئے۔ ہمارا میزبان ایک مصری عرب لڑکا تھا جس کی انگریزی اتنی ہی اچھی تھی جتنی میری سپینش یا منگولین ہوسکتی ہے۔ دو تین جملے وہ بمشکل بول سکتا اور یہ اتنی بڑی مہارت تھی کہ ہمارے میزبان دوستوں نے اسے ہمارے گائیڈ کے طور پر بھیج دیا۔ وہ ہر چیز کے بارے میں مسکرا کر کہتا تھا گد (گڈ)۔ ہم نے اسے کہا کہ مچھلی کھانی ہے، دریائے نیل یعنی نائلز کی۔ اس نے بڑے زور شور سے سر ہلایا اور ایک تنگ سے بازار میں ایک روایتی سی دکان پر لے گیا۔ اب پتہ نہیں اسے وہاں کا ذائقہ پسند تھا یا پھر قاہرہ میں بھی کوئی کمیشن والا معاملہ ہوتا ہے۔ خیر مچھلی آرڈر کر دی ۔ ساتھ والی میزوں پر لوگ روایتی عرب لباس میں ملبوس پران اور دیگر سی فوڈ ڈشز کھا رہے تھے، فش ودھ چپس بھی عام تھی۔تلی ہوئی مچھلی کی سحر انگیز اشتہا ہر طرف پھیلی تھی۔ ہمارے منہ میں بار بار پانی آ رہا تھا۔
میرے ساتھ عزیز دوست آئی سرجن ڈاکٹر انتظار بٹ تھے، وہ ٹوٹی پھوٹی عربی بول لیتے ہیں۔ نجانے ان کے دل میں کیا آئی کہ اٹھ کر ساتھ والی میز پر جا بیٹھے، اپنے تعارف کرایا اور گپ شپ شروع کر دی۔ عرب بلا کے میزبان ہوتے ہیں، ان صاحب نے زبردستی انہیں پران، شرمپ یا جو بھی وہ کھا رہا تھا، کھلایا۔ بٹ صاحب چند منٹ کے بعد کسی اور ٹیبل پر چلے گئے اور وہاں سے بھی کچھ چکھ آئے۔ غرض ہمارا آرڈر سرو ہونے تک وہ کچھ نہ کچھ کھا چکے تھے، ادھر میں شدت سے مچھلی کا انتظار کر رہا تھا۔
کچھ دیر بعد تلی ہوئی مچھلی کی دو تین ٹرے ہمارے سامنے آ گئیں۔ مچھلی تو اچھی تلی ہوئی لگ رہی تھی، مگر اسے دیکھ کر جھٹکا لگا۔ ہمارے ہاں مچھلی والا ہمیشہ مچھلی کا سر الگ کر کے دیتا ہے، اس کی آنکھیں وغیرہ تو فوراً نکال باہر کی جاتی ہیں۔ مصری مچھلی فروش شائد کچھ مختلف سوچتے ہیں یا پھر رواج ایسا ہے۔ اس تلی ہوئی مچھلی کی آنکھیں نہ صرف موجود تھیں بلکہ وہ کم بخت ہماری طرف ہی گھور رہی تھے، جیسے کہہ رہی ہو، منحوسو تمہاری کھانے کی ہوس کے باعث مجھے پکڑ کر دریا سے نکالا گیا۔ اس مصری میزبان لڑکے سے پوچھا کہ یہ کیا مصیبت ہے۔ وہ مسکرا کر بولا سر گد فس گد فس (Good Fish)۔ یہ کہہ کر اس نے تو آنکھوں سمیت اس کو کھانا شروع کر دیا۔ ہم بے چارگی سے ایک دوسرے کو دیکھ کر کسی نہ کسی طرح آنکھوں کو نظرانداز کر کے بقیہ ٹکڑے کھانے لگے۔ مصر میں بھی ٹھنڈی نان نما روٹی ہی ملی۔ مچھلی ویسے مزے کی تھی، خستہ، بھنی ہوئی، ہلکا مسالہ مگر اندر تک رچا بسا۔

شیئر: