پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کی گرفتاری، حقائق جاننے کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل
پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کی گرفتاری، حقائق جاننے کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل
بدھ 11 ستمبر 2024 11:42
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’ہمارے 10 ایم این ایز کو جس انداز سے اُٹھایا گیا یہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔‘
تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی پارلیمنٹ ہاؤس سے گرفتاریوں کے واقعے میں ’سکیورٹی سے متعلقہ انتظامات اور اسمبلی کی حدود میں بلا اجازت نقل و حرکت‘ کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
بدھ کو سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے سارجنٹ ایٹ آرمزسمیت پانچ اہلکاروں کی معطلی کے بعد تحقیقات کے لیے چاررکنی کمیٹی تشکیل دی۔
ایڈیشنل سیکریٹری افتخار احمد کمیٹی کی سربراہی کریں گے جبکہ جوائنٹ سیکرٹریز ارشد علی خان اور رضوان اللہ، قائم مقام سارجنٹ ایٹ آرمز فرحت عباس بھی تحقیقاتی کمیٹی میں شامل ہیں۔
تحقیقاتی کمیٹی نو اور دس ستمبر کی رات کی سی سی ٹی وی فوٹیجز دیکھے گی اور طے کرے گی کہ ارکان کو پارلیمان کے اندر سے کیسے گرفتار کیا گیا۔
دوسری طرف وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسے شواہد ملے کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان کو پارلیمنٹ ہاوس کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے گرفتار کیا گیا ہے۔
بدھ کو قومی اسمبلی اجلاس کے دوران تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی علی محمد خان سپیکر ڈائس پر ڈپٹی سپیکر کے پاس گئے اور ان سے سے تحریک انصاف کے گرفتار ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز کے حوالے سے استفسار کیا۔ جس کے بعد ایوان کی کارروائی میں صرف حکومتی ارکان کی گفتگو جاری رہی تو اپوزیشن نے اس پر احتجاج کیا۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رکن سید خورشید شاہ نے ڈپٹی سپیکر سے کہا کہ اگر اس ایوان کو چلانا ہے تو اپوزیشن کو بات کرنے دی جائے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ صرف حکومتی لوگ ہی بات کرتے رہیں۔ جس پر ڈپٹی سپیکر نے جواب دیا کہ علی محمد خان نے جو انفارمیشن مانگی ہے وہ میرے علم میں نہیں ہے۔ وہ معلومات مانگی ہیں سپیکر صاحب آ جاتے ہیں تو وہ آگاہ کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن ان معلومات کے آنے سے پہلے بات کرنا چاہتی ہے تو میں ان کو فلور دینے کو تیار ہوں۔ جس کے بعد سپیکر نے علی محمد خان کو بات کرنے کی دعوت دی۔
علی محمد خان نے کہا کہ ’ہمارے ممبران کو نقاب پوش افراد نے اٹھا لیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں، بشمول رانا ثناءاللہ، بھی اس واقعے کے وقت موجود تھیں۔ آئی جی اسلام آباد سے پوچھا گیا کہ کیا یہ ان کے لوگ تھے، جس پر انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ سپیکر نے تمام سی سی ٹی وی فوٹیجز منگوانے کا حکم دیا اور پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کا وعدہ کیا، تاہم اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔‘
علی محمد خان نے کہا کہ ان کے ممبران کا استحقاق مجروح ہوا اور اسپیکر ایاز صادق نے یقین دہانی کرائی کہ وہ اس پر ایکشن لیں گے۔ تمام ارکان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرکے ان کو ایوان میں حاضر کیا جائے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ ’پروڈکشن آرڈر کا مطالبہ کرنا اپوزیشن کا حق ہے لیکن پورا ایوان سپیکر ایاز صادق کے پیچھے کھڑا ہے۔ یہاں اسد قیصر کو اپوزیشن کی بات سننے پر گالیاں دی جاتی تھیں۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ پارلیمنٹ سے کسی کو نہیں اٹھایا گیا۔ شواہد دیکھ لیں پھر اس پر بات کریں گے۔ عطا اللہ تارڑ کی بات پر اپوزیشن نے احتجاج کیا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ’جب تک ہمارے اراکینِ اسمبلی رہا نہیں ہوتے پارٹی کے صرف نو دس اراکین ہی ایوان میں آئیں گے۔ جو 10 ستمبر کو ہوا اُمید ہے یہ دہرایا نہیں جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس ایوان کا تقدس پامال ہوا ہے، ایوان پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ ایوان کے لیے یہ بلیک ڈے ہے۔‘
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’ہمارے 10 ایم این ایز کو جس انداز سے اُٹھایا گیا یہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔‘
انہوں نے سوال اُٹھائے کہ ’جن دروازوں سے نقاب پوش آئے اس کی چابیاں کس کے پاس تھیں؟ ایوان کی لاٹیں کس نے بند کیں؟‘
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں ایوان مضبوط ہو اور سیاسی قوتیں مضبوط ہوں، پھر غیر سیاسی قوتوں کو موقع نہیں ملے گا۔‘
انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے انکوائری کرنی ہے تو آڈیو ویڈیو سب ہمارے ساتھ شیئر کریں۔‘
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر علی خان سے کہا کہ ’گزارش ہے کہ آپ اسمبلی سے نہ جائیں، کمیٹیاں نہ چھوڑیں۔ آپ کے ایسے فیصلوں سے وہ تو خوش ہوں گے جو چاہتے ہیں کہ آپ نہ ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب تک یہ ہاؤس فنکشنل نہیں ہوگا یہ ملک فنکشنل نہیں ہوگا۔ آپ ایوان میں اپنا کردار ادا کریں۔‘
قومی اسمبلی نے پارلیمانی کارروائی کو بہتر بنانے کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی تحریک منظور کر لی ہے۔
بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے تجویز پیش کی۔ کمیٹی کی تشکیل کی تجویز چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹوزرداری نے پیش کی تھی۔
کمیٹی سپیکر کی تجویز پر چارٹر آف پارلیمنٹ پر غور کرے گی۔ سپیکر قومی اسمبلی تمام جماعتوں سے نام لے کر کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔