Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آرام کی ضرورت یا اندرونی چپقلش‘، چوہدری پرویز الٰہی سیاست سے دور کیوں؟ 

پرویز الٰہی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ ان کی اہلیہ قیصرہ الٰہی نے ریلی کی قیادت کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان تحریک انصاف اسلام آباد دھرنے میں ناکامی کے بعد اندرونی چپقلش کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ مختلف رہنما ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے ہیں کہ انہوں نے ٹھیک طریقے سے دھرنے کی کال پر اپنا رول ادا نہیں کیا۔ 
صوبہ خیبر پختونخوا کی قیادت خاص طور پر پنجاب کے رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ شوکت یوسف زئی نے ایک ویڈیو پیغام میں باقاعدہ نام لے کر یہ کہا کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے دھرنے میں نہ پہنچ کر نقصان پہنچایا ہے۔
ایسے میں خود بشریٰ بی بی کا بھی ایک بیان آ چکا ہے جس میں انہوں نے کچھ اس طرح کے الزامات ہی عائد کیے ہیں تاہم اس ساری صورتحال میں پی ٹی آئی کی لیڈر شپ (تین بڑوں) میں سے صرف پارٹی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی جیل سے باہر ہیں۔
 لیکن جب سے پرویز الٰہی رہا ہوئے ہیں وہ مکمل طور پر خاموش ہیں۔ 24 نومبر کو جب ملک بھر سے قافلوں کو ڈی چوک پہنچنے کی کال دی گئی تو چوہدری پرویز الٰہی خود تو نظر نہیں آئے البتہ اتوار کی شام کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ گجرات سے ان کی اہلیہ قیصرہ الٰہی کی قیادت میں ایک قافلہ اسلام آباد کو نکلا ہے اور احتجاج کیا ہے۔
گجرات سے نکلنے والا یہ احتجاج نہ تو ڈی چوک پہنچا اور نہ اس کی کوئی تصاویر یا ویڈیوز جاری کی گئیں۔ دوسری طرف چوہدری پرویز الٰہی پر بنائے گئے مقدمات میں ان کی جیل سے رہائی کے بعد بیشتر میں وہ پیش نہیں ہوئے بلکہ ان کے وکلا عدالت سے حاضری معافی کی درخواست منظور کروا لیتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھی تین مختلف مقدمات میں وہ پیش نہیں ہوئے اور ان کے وکلاء نے ان کی حاضری معافی کی درخواست عدالت میں دی جو فوری قبول کر لی گئی۔

پرویز الٰہی نے پی ٹی آئی کی فائنل کال میں شرکت نہیں کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کے وکیل عامر سعید راں سے جب اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’چوہدری پرویز الٰہی اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ان کو آرام کی ضرورت ہے۔ جیل میں ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس کے بعد وہ اپنے گھر پر زیادہ دیر آرام ہی کرتے ہیں اور ابھی تک وہ کسی طرح کے سیاسی رول کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب ان کی صحت مکمل بحال ہو جائے گی تو یقیناً وہ اپنا سیاسی کردار ادا کریں گے۔‘
 تاہم سیاسی مبصرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی کی رہائی کا تعلق براہ راست ان کی زباں بندی سے بھی ہے لیکن خود پرویز الٰہی یا مونس الٰہی نے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی نہ ہی اس تاثر کو زائل کرنے کی کبھی کوئی کوشش کی۔
 البتہ تحریک انصاف کی جانب سے جب بھی کوئی احتجاج یا تحریک کی کال دی جاتی ہے تو حصہ بقدر جثہ کے حساب سے گجرات میں کچھ نہ کچھ سرگرمیاں کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں جمہوری معاملات پر نظر رکھنے والی تنظیم پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’چوہدری پرویز الٰہی بنیادی طور پر ایسے سیاست دان ہیں جنہوں نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر رکھی۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ان کے اپنے اندازے درست ثابت نہیں ہوئے اور ان کو کافی لمبے عرصے تک جیل میں رہنا پڑا، بالآخر انہوں نے اپنے لیے راہ نکالی اور باہر آ گئے۔‘
’یقیناً جب تک یہ موجودہ سیٹ اپ ایسے ہی چلتا ہے تو چوہدری پرویز الٰہی دیکھو اور برداشت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہی رہیں گے اور صرف وہ ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کی زیادہ تر قیادت شاید جارحیت کی سیاست سے تھوڑا پیچھے ہٹنا چاہ رہی ہے۔ اس کی واضح مثال ہمیں اسلام آباد دھرنے کی کال کے بعد دکھائی دی ہے۔ زیادہ تر سیاسی رہنما اس توانائی کے ساتھ جارح مزاج احتجاج کے حق میں نہیں ہیں۔‘

وکیل کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی کو فی الحال آرام کی ضرورت ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی تحریک انصاف کے صدر ہیں اور ان کی ساری زندگی کی سیاست موجودہ طرز سیاست سے مختلف رہی ہے اور بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ حالات کوئی کروٹ بدلیں تو پھر وہ ایک مؤثر طریقے سے دوبارہ اپنی سیاست کا آغاز کریں۔
’وہ جو سمجھ کر تحریک انصاف میں گئے تھے جب 2022 میں تحریک عدم اعتماد آ رہی تھی اور وہ پی ڈی ایم اور تحریک انصاف دونوں سے رابطے میں تھے تو اس کے بعد انہوں نے ایک فیصلہ لیا جس فیصلے کے اثرات آج تک ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ جس طرح سے اس وقت سیاست ہو رہی ہے جس میں بہت زیادہ معاملات حدت اختیار کر چکے ہیں تو ایسی سیاست خود چوہدری پرویز الٰہی کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔‘

شیئر: