Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا حکومت موبائل اور براڈبینڈ انٹرنیٹ کی طرح سٹارلنک بھی بند کر سکے گی؟

چیئرمین پی ٹی اے کے مطابق ’حکومت جب بھی ضروری سمجھے گی سٹارلنک کی سروسز کو بند کر سکے گی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں موبائل انٹرنیٹ اور کئی ایک سوشل میڈیا ایپس حکومتی احکامات کے ذریعے بند ہیں، امید کی جا رہی ہے سٹارلنک سیٹلائٹ انٹرنیٹ آنے کے بعد اس طرح کی قدغنیں نہیں لگائی جا سکیں گی۔
تاہم چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں سٹارلنک آنے کے باوجود حکومت جب بھی ضروری سمجھے گی اس کی سروسز کو بند کر سکے گی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس بدھ کو سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ 
اجلاس میں پاکستان میں سٹارلنک کی لانچنگ سے متعلق امور پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، وزارت داخلہ، سپارکو اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔
 بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے 2023 میں قومی سپیس پالیسی متعارف کرائی تھی، جس کے تحت 2024 میں اس پالیسی کے قواعد و ضوابط مرتب کیے گئے۔ پالیسی کے تحت سپیس سے متعلق امور کی نگرانی کے لیے پاکستان سپیس ریگولیٹری بورڈ قائم کیا گیا ہے جو نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے تحت کام کرے گا۔
 کسی بھی سیٹلائٹ سروس فراہم کنندہ کو پاکستان میں خدمات شروع کرنے کے لیے پہلے ایس ای سی پی کے پاس رجسٹریشن کروانا ہوگی۔ اس کے بعد پاکستان سپیس ریگولیٹری بورڈ میں اندراج کرنا ہوگا، اور آخر میں پی ٹی اے سے لائسنس حاصل کرنا ہوگا۔
اجلاس کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ سٹارلنک نے فروری 2022 میں پاکستان میں براڈبینڈ سروس فراہم کرنے کے لیے لائسنس کی درخواست دی تھی جو سیکیورٹی کلیئرنس کے لیے وزارت داخلہ کو بھیجی گئی۔ اگر سٹارلنک نئے ریگولیٹری فریم ورک کے تحت تمام مراحل مکمل کرتا ہے، تو پی ٹی اے لائسنس جاری کر دے گی۔
 بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایک چینی کمپنی ٹرپل ایس ڈی بھی پاکستان میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے کی خواہش مند ہے، اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مستقبل میں مزید سیٹلائٹ کمپنیاں پاکستان میں اپنی خدمات فراہم کرنے کی کوشش کریں گی۔

حکومتی سینیٹرز کا کہنا تھا کہ ’سٹارلنک کے مالک ایلون مسک کے پاکستان مخالف بیانات کو بھی مدنظر رکھا جائے‘ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

اجلاس کے دوران سینیٹر افنان اللہ نے ایلون مسک کی جانب سے پاکستان مخالف پوسٹس پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ایلون مسک نے پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک منفی مہم چلائی جس میں پاکستانیوں پر الزامات عائد کیے گئے۔ جو بھی فیصلہ کیا جائے، ایلون مسک کے پاکستان مخالف بیانات کو مدنظر رکھا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا ایسے شخص کو کاروبار کی اجازت دینی چاہیے جو پاکستان کے خلاف اس قسم کے بیانات دیتا ہے۔ ایلون مسک اپنے بیانات پر معافی مانگیں، ورنہ ہمیں انہیں پاکستان میں کاروبار کی اجازت دینے سے گریز کرنا چاہیے۔
اجلاس میں چیئرمین پی ٹی اے نے وزارت داخلہ کی جانب سے سکیورٹی کلیئرنس نہ ملنے کی وجوہات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ سٹارلنک نے کچھ غیر رسمی دستاویزات فراہم کی ہیں جن کے مطابق وہ پاکستان میں 100 ایم بی پی ایس کی انٹرنیٹ سپیڈ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جب کہ اس وقت پاکستان میں اوسط براڈبینڈ سپیڈ 18 ایم بی پی ایس ہے۔ 
سٹارلنک کی خدمات خاص طور پر پاکستان کے دوردراز علاقوں میں کاروباری افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں، تاہم اس کی قیمت عام انٹرنیٹ سروسز کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوگی۔ 
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ سٹارلنک کو پاکستان میں کام کرنے کے لیے ایل ڈی آئی لائسنس کی ضرورت ہوگی، جس کے لیے کمپنی نے پہلے ہی درخواست دے رکھی ہے۔

چیئرمین پی ٹی اے کے مطابق ’تمام تحفظات کو مدنظر رکھ کر سٹارلنک کو لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ ہوگا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سینیٹر انوشہ رحمان نے اجلاس کے دوران کہا کہ دنیا بھر میں براڈبینڈ انٹرنیٹ کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں محتاط رویہ اپنانا ہوگا۔ 
انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت انٹرنیٹ کی بندش جیسے مسائل سے دوچار ہیں اور اب ایسی سروس متعارف کرانے جا رہے ہیں جس کا مالک پاکستان مخالف بیانات دیتا ہے۔ 
’سٹارلنک کی نگرانی کے حوالے سے بھی خدشات موجود ہیں اور ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مستقبل میں اگر پاکستان مخالف مواد نشر ہوتا ہے تو اسے ریگولیٹ کرنے کا کیا طریقہ کار ہوگا۔‘
 انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہمیں شکایت لے کر پاکستان سپیس ریگولیٹری بورڈ کے پاس جانا ہوگا یا پی ٹی اے اس معاملے کو دیکھے گا۔
چیئرمین پی ٹی اے نے وضاحت کی کہ تمام تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی سٹارلنک کو لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ 
’سٹارلنک براہ راست سیٹلائٹ سے کام نہیں کرے گا بلکہ پاکستان میں گراؤنڈ سٹیشنز اور گیٹ وے کے ذریعے خدمات فراہم کرے گا، جس کی نگرانی پی ٹی اے کرے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ تمام متعلقہ حکومتی اداروں کی جانب سے سٹارلنک کو اپنے خدشات سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور کمپنی نے حکومت کی پالیسیوں پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ وہ کسی بھی سسٹم کو بائی پاس نہیں کرے گی۔

 سٹارلنک نے 2022 میں براڈبینڈ سروس فراہم کرنے کے لیے لائسنس کی درخواست دی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

چیئرمین پی ٹی اے نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ موجود ہے کہ حکومت سکیورٹی، امن و امان اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بند کر سکتی ہے اس لیے سٹارلنک کو بھی حکومت جب بھی بند کرنے کا کہے گی اسے بند کیا جا سکے گا۔
سینیٹر پلوشہ خان نے ایلون مسک کے پاکستان مخالف بیانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پوسٹس کو انڈین میڈیا نے بھی اُچھالا جس سے پاکستان کی عالمی سطح پر بدنامی ہوئی۔ 
انہوں نے کہا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش معلوم ہوتی ہے، اور ہمیں اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنا چاہیے۔
پلوشہ خان نے سوال اٹھایا کہ کیا سٹارلنک نے حالیہ میڈیا ہائپ کے بعد حکومت سے دوبارہ رابطہ کیا ہے۔ اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے جواب دیا کہ ایلون مسک کی پوسٹس کی وجہ سے یہ معاملہ مزید زیر بحث آیا ہے اور میڈیا میں زیادہ توجہ حاصل کر رہا ہے، ورنہ ان کی درخواست پرانی اور زیرالتوا ہے۔
انوشہ رحمان نے سوال اٹھایا کہ پی ٹی اے کی بنیادی ذمہ داریوں کو دیگر اداروں کو کیوں منتقل کیا جا رہا ہے۔؟ پی ٹی اے کو خود یہ کام انجام دینا چاہیے تھا اور وزارت آئی ٹی کی جانب سے سائبر سکیورٹی جیسے معاملات وزارت داخلہ کے سپرد کرنا مناسب عمل نہیں ہے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے وضاحت کی کہ حکومت نے اس معاملے پر وسیع غور و فکر کے بعد فیصلہ کیا کہ سپارکو کو تحفظ دیا جائے، جس کے لیے سپیس ریگولیٹری بورڈ قائم کیا گیا ہے، تاہم سیٹلائٹ انٹرنیٹ کا لائسنس پی ٹی اے ہی جاری کرے گی۔ 

 

شیئر: