اسرائیل نے اتوار کو کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں تمام سامان اور رسد کا داخلہ روک رہا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے اس فیصلے کی وضاحت نہیں کی تاہم خبردار کیا ہے کہ اگر حماس نے جنگ بندی میں توسیع کی امریکی تجویز کو قبول نہ کیا تو اسے ’مزید نتائج‘ بگھتنے ہوں گے۔
اگرچہ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا امداد کی فراہمی مکمل طور پر روک دی گئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
غزہ میں جنگ بندی کے اگلے مرحلے تک پہنچنا مشکل کیوں؟Node ID: 886595
اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے اتوار کو ان کی حکومت کی طرف سے امداد کی فراہمی معطل کرنے کے بعد غزہ میں قحط کے خطرے کے بار بار انتباہی پیغامات کو ’جھوٹ‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے یروشلم میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’اس بھوک کے (دعوے کے) حوالے سے اس تمام جنگ میں جھوٹ بولا گیا۔ یہ جھوٹ تھا۔‘
حماس نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی میں توسیع کی ایک نئی تجویز کو اپنا کر اسے (جنگ بندی) کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
عسکریت پسند گروہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے امداد بند کرنے کا فیصلہ ’سستی بھتہ خوری، جنگی جرم اور (جنگ بندی) معاہدے پر صریحً حملے‘ کے مترادف ہے۔
اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کا پہلا مرحلہ، جس میں انسانی امداد میں اضافہ بھی شامل تھا، سنیچر کو ختم ہو گیا۔ دونوں فریقوں نے ابھی دوسرے مرحلے پر بات چیت کرنی ہے، جس میں حماس کو اسرائیلی انخلا اور دیرپا جنگ بندی کے بدلے میں باقی کے درجنوں یرغمالیوں کو رہا کرنا ہے۔

قبل ازیں اتوار کو اسرائیل نے کہا تھا کہ وہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کو رمضان اور پاس اوور (یہودیوں کا مذہبی تہوار) یا 20 اپریل تک بڑھانے کی تجویز کی حمایت کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ تجویز کہ یہ تجویز ٹرمپ انتظامیہ کے مشرق وسطیٰ کے خصوصی سفیر سٹیو وٹ کوف کی طرف سے آئی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق، اس تجویز کے تحت حماس پہلے دن آدھے یرغمالیوں کو رہا کرے گی اور باقی کو مستقل جنگ بندی پر اتفاق ہونے پر رہا کرے گی۔
حماس نے ابھی تک اس تجویز کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔