صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع اَپر چترال کے سب سے آخری گاؤں کا نام وادی بروغل ہے، جو افغانستان کی واخان پٹی کے ساتھ پاکستان میں واقع ہے۔ جعرافیائی لحاظ سے اس علاقے کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے مگر اس کے باوجود یہ علاقہ بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے پسماندہ تصور کیا جاتا ہے۔
وادی بروغل میں کون لوگ آباد ہیں؟
وادی بروغل لوئر چترال سے 250 کلومیٹر کی دوری پر ہے، جہاں تک پہنچنے کے لیے پورا دن سفر کرنا پڑتا ہے۔ بروغل میں سات گاؤں ہیں جو مجموعی طور پر 250 گھرانوں پر مشتمل ہیں۔
مزید پڑھیں
-
ہسپانوی شکاری نے چترال میں سیزن کا دوسرا مارخور شکار کر لیاNode ID: 884306
اس وادی میں تین زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں واخی، سراقلی اور کرغیز شامل ہیں۔ اس گاؤں میں واخی زبان بولنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ وادی بروغل میں چترال کی کھوار زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
پاکستان کا سرد ترین علاقہ
وادی بروغل پاکستان کے سرد ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں سال کے سات مہینے برف پڑی رہتی ہے۔ برفباری کے باعث اکتوبر سے اپریل تک یہاں کے زمینی راستے برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ موسمِ سرما میں زندگی مفلوج ہو جاتی ہے اور مقامی لوگ آمدورفت کے لیے گھوڑوں اور خچروں کا استعمال کرتے ہیں۔
بروغل گاؤں میں سردیوں کے موسم میں درجۂ حرارت منفی 40 تک پہنچ جاتا ہے، تاہم محکمہ موسمیات کے آلات نہ ہونے کے سبب معلومات ریکارڈ نہیں کی جاتیں۔

بروغل کا علاقہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے، یہاں سب سے بڑا گلیشیئر موجود ہے۔ جبکہ اس علاقے میں 40 سے زائد پانی کی جھیلیں ہیں، جن میں بلند ترین قورمبر جھیل مشہور ترین سیاحتی مرکز ہے۔
بروغل کی منفرد ثقافت
سرحدی علاقے میں آباد بروغل کے لوگوں کی ثقافت بھی انفرادیت کی حامل ہے، یہاں کے رہنے والے شادیوں کے لیے برفباری کا انتظار کرتے ہیں، یعنی خون جما دینے والی سردی میں شادی کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔
بروغل کے سماجی ورکر اور نوجوان تنظیم کے رہنما اصغر علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’لڑکی کی رخصتی کے لیے سردیوں کے موسم کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ سردیوں میں شادی کرنا ہماری ثقافت کا حصہ ہے، کیونکہ اس موسم میں کام کاج کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’برفباری کے شدید موسم میں گھنٹوں سفر کر کے دلہن لے کر آتے ہیں اور یہ سفر گھوڑوں پر طے کیا جاتا ہے۔‘
مقامی رہنما اصغر علی کے مطابق برف اور سردی کے باوجود مقامی موسیقی کی دھن بجا کر بارات لے جائی جاتی ہے۔ مقامی خواتین دلہن کا استقبال کرنے کے لیے گھنٹوں پیدل سفر کرتی ہیں، وادی میں شادی ایک بڑے تہوار کے طور پر مناتے ہیں جس میں تمام گاؤں کے افراد کو مدعو کیا جاتا ہے۔‘
