غزہ میں گذشتہ ماہ اسرائیلی افواج کے ہاتھوں 15 فلسطینی طبی عملے کے افراد کی ہلاکت کے حوالے سے اسرائیل کی تحقیقات کے مطابق اس واقعے میں ’پیشہ ورانہ ناکامیاں‘ سرزد ہوئی ہیں اور اس پر ایک نائب کمانڈر کو برطرف کیا جائے گا۔
اسرائیل نے شروع میں دعویٰ کیا تھا کہ جب فوجیوں نے فائرنگ کی تو طبی عملے کی گاڑیوں پر کوئی ایمرجنسی سگنلز نہیں تھے۔ تاہم بعد میں اسرائیل اس بیان سے پیچھے ہٹ گیا۔ ایک طبی اہلکار کے موبائل فون سے حاصل شدہ ویڈیو نے اسرائیل کے ابتدائی موقف کی تردید کی۔
فوج کی تحقیق کے مطابق نائب بٹالین کمانڈر نے ’رات کے وقت ٹھیک نظر نہ آنے کی وجہ سے‘ اندازہ لگایا کہ ایمبولینسز حماس کے جنگجوؤں کی تھیں۔
مزید پڑھیں
واقعے کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایمبولینسز پر فلیش لائٹس اور واضح لوگو موجود تھے۔
طبی ٹیموں کا رویہ غیر معمولی یا خطرناک نہیں تھا۔ فائرنگ کے بعد تین طبی اہلکار ایمبولینس سے باہر نکلتے ہیں اور جو ایمبولینس فائرنگ کی زد میں آتا ہے اس کی طرف بڑھتے ہیں۔ اس دوران ان کی گاڑیوں پر فوراً گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے جو کہ پانچ منٹ سے زیادہ جاری رہتی ہے۔
23 مارچ کی صبح جنوبی غزہ کے شہر رفح کے علاقے تل السلطان میں کارروائی کرنے والے فوجیوں کی فائرنگ سے ہلال احمر کے آٹھ اہلکار، سول ڈیفنس کے چھ ملازمین اور اقوام متحدہ کا ایک کارکن جان سے گیا تھا۔
فوجیوں نے بعد میں لاشوں اور تباہ شدہ گاڑیوں کو بلڈوزر کے ذریعے ایک اجتماعی قبر میں دفن کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ اور امدادی کارکن ایک ہفتے بعد جائے وقوعہ پر پہنچ کر لاشیں نکال سکے۔
فلسطینی ہلال احمر کے سربراہ کا کہنا ہے کہ مارے گئے افراد کو ’قریب سے نشانہ بنایا گیا۔‘
اسرائیلی فوج کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی ہلاکت ’آپریشنل غلط فہمی‘ کا نتیجہ تھی، اور 15 منٹ بعد پیش آنے والے ایک علیحدہ واقعے میں جب اسرائیلی فوجیوں نے اقوام متحدہ کی فلسطینی گاڑی پر فائرنگ کی، تو وہ احکامات کی خلاف ورزی تھی۔

یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ آیا تحقیقاتی رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مارے گئے افراد میں سے کوئی حماس سے وابستہ تھا یا نہیں۔ اسرائیلی فوج نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ ان میں سے نو افراد جنگجو تھے۔
تحقیقات میں یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ایمبولینسز کو کچلنے کا فیصلہ غلط تھا، لیکن یہ بھی کہا گیا کہ واقعے کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
’تحقیق میں ایسی کوئی شہادت نہیں ملی جو اس بات کی تائید کرے کہ ان افراد کو قتل کرنے سے پہلے یا بعد میں باندھا گیا تھا۔‘
اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس اپنے جنگجوؤں کو ایمبولینسوں اور ہنگامی گاڑیوں میں منتقل کرتی اور چھپاتی ہے۔ تاہم غزہ کا طبی عملہ ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی حملوں میں ہلال احمر اور سول ڈیفنس کے 150 سے زائد ہنگامی اہلکاروں، جن میں سے بیشتر ڈیوٹی پر تھے، سمیت 1,000 سے زائد طبی کارکن مارے گئے ہیں۔ اسرائیلی فوج شاذ و نادر ہی ایسے واقعات کی تحقیقات کرتی ہے۔
فلسطینی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا اسرائیلی فوج پر یہ الزام لگا چکی ہیں کہ وہ اپنی فوج کے غیر قانونی اقدامات کی مؤثر یا غیر جانبدارانہ تحقیقات نہیں کرتی، بلکہ اکثر انہیں چھپاتی ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے ہیں۔ اسرائیل، جو اس عدالت کا رکن نہیں ہے، کا مؤقف ہے کہ اس کا قانونی نظام فوج کے خلاف الزامات کی تحقیقات کر سکتی ہے، اور نیتن یاہو نے آئی سی سی پر یہودیوں سے دشمنی کا الزام عائد کیا ہے۔