برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے تحت زیرِعلاج مریضوں کو ایک ایسی تحقیق کا حصہ بنایا جا رہا ہے جس میں خون کے ٹیسٹ کا ایسا طریقہ معلوم کیا جائے گا جو مصنوعی ذہانت کی مدد سے ممکنہ طور 12 اقسام کے کینسر کی قبل از وقت تشخیص کر سکے گا۔
سکائی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ٹرائل کے دوران آٹھ ہزار مریضوں کے خون کے نمونے لے کر ان میں ٹیومرز سے نکلنے والے جنیاتی مواد کے بہت چھوٹے اجزاء کا تجزیہ کیا جائے گا۔
اس سے قبل اب تک 20 ہزار مریضوں پر کیے گئے ٹیسٹوں سے پتا چلتا ہے کہ miONCO-Dx ٹیسٹ کینسر کی تشخیص اور انسانی جسم میں اس کے مقام کی نشاندہی کرنے میں 99 فیصد درست رہا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’اپنی نوعیت کا نایاب کیس‘، جب مریض سے سرجن میں کینسر منتقل ہواNode ID: 884058
-
مصری شہری نے کینسر میں مبتلا اہلیہ اور بچوں کو چھوڑ دیاNode ID: 885255
اب اگر یہ نیا ٹیسٹ ٹرائل کے مرحلے میں توقعات کے مطابق ثابت ہوا تو بیماری کے انتہائی ابتدائی مرحلے میں اس کا علاج ممکن ہو جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق پھیپھڑوں، معدے، پروسٹیٹ، غذائی نالی، جگر، مثانہ، بچہ دانی، آنتوں، لبلبے اور چھاتی کے کینسر کے ساتھ ساتھ ہڈیوں اور نرم ٹشوز کے سارکوما اور دماغی رسولی کی ایک قسم سمیت 12 عام کینسرز کا پتا لگانے کے لیے خون کے 10 قطروں سے بھی کم کی ضرورت ہوتی ہے۔
برطانیہ کے محکمہ صحت نے کہا کہ یہ بلڈ ٹیسٹ اب ‘توثیق اور تصدیق‘ کے مرحلے کے لیے تیار ہے۔
ٹیسٹ کے ٹرائل کا اعلان باولبیب لیبارٹری کا نام آنتوں کے کینسر سے متعلق مہم چلانے والی ڈیم ڈیبورہ جیمز کے نام پر رکھنے کے موقعے پر کیا گیا۔
ڈیم ڈیبورہ جمیز آنتوں کے کینسر کے سبب تین برس قبل 40 برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں۔
باولبیب لیب کو کینسر ریسرچ یوکے فنڈ کرتی ہے اور یہ لیبارٹری سائنس دانوں کو کینسر کے دوسرے بڑے سبب پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے اکٹھا کر رہی ہے۔

برطانوی حکومت نے یونیورسٹی آف ساؤتھیمپٹن اور بائیوٹیک سٹارٹ اَپ زینجینیرا کی جانب سے ڈیویلپ کیے گئے اس جنیاتی ٹیسٹ کے لیے 24 لاکھ پاؤنڈز کی رقم دی ہے۔
نیشنل ہلیتھ سروس کے لندن کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر سر سٹیفن پووِس نے کہا کہ ’اس ٹیسٹ میں آنتوں کے کینسر کا جلدی پتا لگانے میں مدد مل سکتی ہے اور دیگر ٹیسٹوں میں کمی بھی ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس ٹرائل کا اگلا مرحلہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سے اس کے کارگر ہونے اور پریکٹس میں اس کی استعمال کے امکانات کا اندازہ ہو گا۔‘
برطانیہ میں آنتوں کے کینسر کے سالانہ اوسطاً 44 ہزار کیسز سامنے آتے ہیں اور اس کی وجہ سے ہر سال 17 ہزار لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔
اگر اس کینسر کی جلد تشخیص ہو جائے تو 10 میں سے 9 مریضوں کو زندہ بچایا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کینسر کے انتہائی مرحلے میں تشخیص ہو تو 10 میں صرف ایک مریض زندہ بچ سکتا ہے۔